
مضامین و مقالات
کیا الیکشن کمیشن لگائے گا بھاجپا کی نیا پار
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
پارلیمانی جمہوریت میں آئینی اداروں اور انتخابات کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ آئینی ادارے چیک اینڈ بیلنس(احتساب اور توازن) بنانے کا کام کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن منصفانہ، غیر جانبدار انتخابات کراتا ہے ۔ عوام کا اعتماد بحال رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ ادارے سیاسی اقتدار سے متاثر ہوئے بغیر آزادی کے ساتھ اپنا کام کریں ۔ ان کی کوتاہی حکمرانوں کو مطلق العنان اور جمہوریت کے آمریت میں بدل سکتی ہے ۔ ملک گزشتہ برسوں میں جس طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے اس کا کم یا زیادہ سب کو اندازہ ہے ۔ اس وقت دہلی انتخابات کے تناظر میں الیکشن کمیشن کی بات کرنی ہے ۔ کیونکہ اس پر الیکشن کرانے کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔ انتخابات میں اس کا کام ریفری کا ہوتا ہے ۔ یہ جتنا غیر متنازعہ اور آزاد ہوگا انتخابی سیاست پر عوام کا بھروسہ اتنا ہی بڑھے گا ۔ پچھلے دس سالوں میں اس پر جتنے الزام لگے، انگلیاں اٹھیں اس نے کبھی کوئی صفائی نہیں دی ۔ عوام میں الیکشن کمیشن کے متعلق جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں انہیں دور کرنے کے بجائے دہلی الیکشن آفیسر نے بی جے پی کے ٹیوٹ کو اپنے آفیشیل ٹیوٹر ہینڈل پر ری ٹیوٹ کر دیا ۔ یہ پوسٹ بی جے پی لیڈران کی الیکشن آفیسروں کے ساتھ ہوئی میٹنگ کو لے کر تھی ۔ عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا ممبر سنجے سنگھ نے اس کا اسکرین شارٹ شیئر کرکے ایک اہم آئینی ادارے اور بی جے پی کے رشتہ کو اجاگر کیا ہے ۔
کانگریس کے مرکزی آفس کی افتتاحی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن کے متعصبانہ رویہ پر سخت تنقید کی تھی ۔ انہوں نے ہریانہ، مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان میں الیکشن کمیشن نے کھلے عام جانبداری کا مظاہرہ کیا تھا ۔ وہاں ماحول کانگریس کے حق میں تھا لیکن نتائج غیر متوقع طور پر بی جے پی، این ڈی اے کے حق میں آئے ۔ 24 گھنٹہ بھی نہیں گزرے تھے کہ ان کی بات صحیح ثابت ہوتی دکھائی دی ۔ سنجے سنگھ نے اپنے ٹیوٹ میں طنز کرتے ہوئے لکھا کہ الیکشن آفیسر رسمی طور پر بی جے پی میں شامل ہو کر اس کی انتخابی تشہیر کریں گے ۔ انہوں نے لکھا کہ تاریخ میں پہلی بار نئی دہلی کے الیکشن آفیسر نے چوری چھپے بی جے پی کے ٹیوٹ کو ری ٹیویٹ کرنا شروع کر دیا ہے ۔ملک پچھلے کچھ عرصہ سے دیکھ رہا ہے کہ بھاجپا کی سربراہی والی حکومت میں اپوزیشن کو نیست و نابود کرنے کی جو چالیں چلی جا رہی ہیں ۔ ان میں الیکشن کمیشن اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ اسے جیبی ادارہ بنانے کی کشش کی گئی ہے جس کا کام حکومت کی ہدایات پر عمل کرنا رہ گیا ہے ۔ سارے انتخابی پروگرام برسر اقتدار حکمرانوں کی سہولت کے مطابق طے کئے جاتے ہیں ۔ الیکشن کی تاریخیں اعلان کرنے کے بعد بدل دی جاتی ہیں ۔ الیکشن کمشن کے اعلان ہونے سے پہلے برسراقتدار جماعت کے لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کن تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔
اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے بی جے پی حکومت نے الیکشن کمیشن کو کافی حد تک کمزور کر دیا ہے۔ اس سے پہلے چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب وزیر اعظم، ایک مرکزی وزیر، اپوزیشن لیڈر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے مشترکہ طور پر کیا تھا، پچھلی حکومت نے ایک قانون لا کر چیف جسٹس کو اس کمیٹی سے ہٹا دیا ۔ اس طرح الیکشن کمشنر کی تقرری پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہو گیا اور اس میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں رہا ۔ اپوزیشن نے کئی ریاستوں اور گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اور الیکشن کمیشن کے درمیان ملی بھگت کا الزام لگایا ۔ ہریانہ اور مہاراشٹر کے حالیہ انتخابات کے ساتھ ہوئے ضمنی انتخابات میں یہ بھی دیکھا گیا کہ صبح کے وقت جو رجحانات تھے وہ ڈیڑھ گھنٹے کے اندر بدل گئے ۔ دوپہر تک بی جے پی بالآخر جیت گئی اور سارے قیاس فیل ہو گئے ۔ یہ کھیل کئی ریاستوں میں کھیلا جاتا رہا ہے ۔ کئی حلقوں میں، ای وی ایمز اسٹرانگ رومز کے باہر پائی گئیں یا چھیڑ چھاڑ کے واضح نشانات دکھائے گئے ۔ خاص طور پر، بہت سی مشینیں طویل استعمال کے بعد بھی گنتی کے وقت 99 فیصد تک چارج پائی گئیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہوئی ہے ۔ الیکشن کمیشن نہ صرف اس پر کوئی دھیان نہیں دیا بلکہ بی جے کارکنان کے نوٹ بانٹنے، مذہبی پولرائزیشن اور ھلے عام فرقہ وارانہ بیان دینے پر بھی کوئی کاروائی نہیں کی ۔ پولس اہلکاروں کے ذریعہ ووٹ دینے سے روکے جانے اور گنتی میں کی گئی دھاندلی پر بھی الیکشن کمیشن خاموش رہا ۔ چنڈی گڑھ کے میئر کا معاملہ تو عدالت کی مداخلت سے سلجھ گیا لیکن کئی جگہ دو مرتبہ گنتی میں جیتے ہوئے امیدوار کو لائٹ بھگا لاٹھی چارج کرکے ہرا دینے پر کچھ نہیں کیا گیا ۔ بی جے پی جن حلقوں میں ہار سکتی ہے الیکشن سے پہلے وہاں کے ایس پی ڈی ایم کو بدلنا اور ووٹوں کی گنتی سے پہلے ہوم منسٹری کے انتظامیہ کو فون کیا جانا کمشن کو دکھائی نہیں دیتا ۔
مگر اپوزیشن کی معمولی سی کوتاہی پر اسے نوٹس تھما دیا جاتا ہے ۔ یہ بات صرف اپوزیشن ہی نہیں، ملک کے بہت سے دانشور اور عوام بھی محسوس کرتے ہیں ۔ اس لئے اپوزیشن، دانشور اور رضاکار تنظیمیں چاہتی ہیں کہ ووٹنگ بیلٹ پیپر کے ذریعے کرائی جائے ۔ لیکن اس بات کو حکومت اور الیکشن کمیشن نہیں سنتا ۔ لوک سبھا انتخابات سے پہلے کئی اپوزیشن پارٹیاں الیکشن کمیشن سے مل کر اس معاملے پر اپنے خیالات پیش کرنا چاہتی تھیں اور ڈیمو کے ذریعے یہ بھی دکھانا چاہتی تھیں کہ مشینوں کو ہیک کیا جا سکتا ہے، لیکن الیکشن کمشنر نے انہیں وقت نہیں دیا ۔ امریکہ کے ٹیکنو کریٹس ایلن مسک نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو ہیک کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے ڈاک کے ذریعہ منگائے گئے ووٹوں میں بھی گڑبڑی ہونے کی بات کہی ہے ۔ دنیا کے بہت سے ملک ای وی ایم چھوڑ کر بیلٹ پیپر سے ووٹنگ کرانے لگے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہمارے پڑوسی ممالک میں بھی الیکشن بیلٹ پیپر سے ہو رہے ہیں لیکن بھارت اسے چھوڑنے کو تیار نہیں ہے کیوں؟
الیکشن کمیشن نے حال میں ووٹوں کی گنتی کے حوالے سے یہ نظام اپنایا ہے کہ وہ ووٹنگ ختم ہونے کے کئی گھنٹے بعد نظرثانی شدہ اعداد و شمار جاری کرتا ہے ۔ دونوں کے درمیان نہ صرف تھوڑا بلکہ 5-7 فیصد کا فرق ہے جو کسی بھی نتیجے کو بدلنے کے لیے کافی ہے ۔ مہاراشٹر میں لوک سبھا الیکشن کے بعد صرف چار پانچ مہینوں میں ووٹروں کی تعداد میں 47 لاکھ کا اضافہ ہوا ۔ اس سے اپوزیشن کے شک ووٹ بڑھانے اور ووٹر لسٹوں سے نام کاٹنے کو تقویت ملتی ہے ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں بی جے پی کے حامی ووٹوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ اور مخالف سمجھے جانے والے ووٹروں (اقلیتوں، دلت، او بی سی وغیرہ) کے نام حذف کرنے کے ثبوت موجود ہیں ۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں پانچ کروڑ ووٹوں کے اضافہ کی وجہ سے تقریباً 80 سیٹوں کا بی جے پی کو فائدہ ملا ۔ جس کی وجہ سے آج بی جے پی تیسری بار اقتدار میں ہے ۔
دہلی کے انتخاب میں یوگی ادتیہ ناتھ بی جے پی امیدواروں کی حمایت میں ایک درجن ریلیاں کریں گے ۔ یا یوں کہیں کہ دہلی آکر وہ زہر اگلیں کے اور ووٹوں کو پولرائز کریں گے ۔ ایسے کئی اور نفرتی فائر برانڈ بی جے پی کے رکن دہلی آکر انتخابی ماحول میں آگ لگائیں گے ۔ 2020 کے الیکشن میں بھی نفرتی ایجنڈے پر کھل کر عمل ہوا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کیا اسے روکے گا؟ اور اپوزیشن اس کا مقابلہ کیسے کرے گا ۔ سابق ممبر پارلیمنٹ ادت راج کا کہنا ہے کہ بی جے پی بھلے ہی ہندو مسلم کرے کانگریس کا مقصد لوگوں کو بانٹ کر ووٹ مانگنا نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن میں روزگار، مہنگائی پر بات نہیں ہوتی جبکہ زیادہ نوکریاں ہندو لیتے ہیں ۔ ای ایس ایم ای بھی بڑے پیمانے پر ہندو چلاتے ہیں ۔ مہنگائی سب کو متاثر کرتی ہے، ہندو مسلم کرنے کا سب سے زیادہ نقصان ہندوؤں کو ہی ہوتا ہے ۔ کانگریس اپنے اصول پر قائم ہے چاہے وہ الیکشن ہارے یا جیتے ۔
اکثر انتخابات سے پہلے یا نتائج آنے کے بعد ای وی ایم کی بات کی جاتی ہے، لیکن راہل نے دہلی انتخابات کے درمیان میں یہ جاننے کے باوجود کہ انتخابات اسی نظام کے تحت کرائے جائیں گے، کہا تھا کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کی مدد کر رہا ہے ۔ دہلی الیکشن آفس سے بی جے پی کے ٹویٹ کو دوبارہ پوسٹ کرنے کے واقعے نے اس کی تصدیق کردی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اپوزیشن اور عوام الیکشن کمیشن کو شکایت دے کر، مل کر اپنا احتجاج ظاہر کرکے یا ٹویٹ کے ذریعہ اپنی ناراضگی ظاہر کرکے کیا سدھار سکتے ہیں ۔ کیوں نہیں اس کے خلاف عوامی تحریک چلائی جائے ۔ پورے ملک میں مظایرے کئے جائیں ۔ اپوزیشن جماعتیں اعلان کرے کہ ای وی ایم سے الیکشن ہوگا تو وہ حصہ نہیں لیں گے ۔ عوام کو بھروسہ میں لے کر حزب اختلاف کو سخت فیصلہ لینا ہوگا ۔ تبھی الیکشن کمیشن یکطرفہ حمایت کرنے سے رک سکتا ہے ۔