مضامین و مقالات

ڈاکٹر،مسیحا یا پھر قاتل!!!!

ڈاکٹری کا پیشہ مسیحائی کا پیشہ ہے۔کہیں ایک حدیث پڑھی تھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا انسانیت کی جان بچائی اور جس نے نا حق ایک انسان کی جان لی اس نے پوری انسانیت کی جان لی۔

سب سے پہلے تو میں آپ تمام ڈاکٹر صاحبان سے جو میرے خاندان یا حلقۂ احباب میں شامل ہیں اور ان تمام ڈاکٹرز سے بھی جو اپنے پیشے کو معتبر سمجھتے ہیں اور بہترین خدمات انجام دے رہے ہیں، ان سب سے معذرت کرتی ہوں اگر ان کو میری بات بری لگے۔ میرا مقصد کسی کے جذبات کو مجروح کرنا نہیں۔ میں مانتی ہوں کہ ڈاکٹری کا پیشہ بہت مقدس پیشہ ہے لیکن اس پیشے میں کچھ تجارت پیشہ افراد بھی شامل ہو چکے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف پیسے کمانا ہے اور کچھ نہیں ہے۔افسوس ہوتا ہے یہ بولتے ہوئے کہ ایسے ڈاکٹرز کا دین ایمان صرف اور صرف پیسہ ہے۔
ہمارا ایمان ہے کہ شفا اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اللہ نے کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں شفا دی ہے اور یہی لوگ، جنہیں ہم ڈاکٹرز کہتے ہیں، ہماری تکالیف کو دور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ڈاکٹری کے پیشے کو عزت و احترام سے دیکھا گیا ہے اور دیکھا جارہا ہے۔
ڈاکٹری ایک بہت ہی مقدس اور محترم پیشہ ہے۔ ڈاکٹری ایک ایسا پیشہ ہے جسے لوگ خدمت کا پیشہ کہتے ہیں اس کے ذریعے ڈاکٹر عوام کی خدمت کرتے ہیں ان کے دکھوں کا مداوا کرتے ہیں۔ لوگ ایک ڈاکٹر کو معاوضے کے ساتھ ساتھ دعاؤں سے بھی نوازتے ہیں۔ یقیناً دعا ایسی بات ہے جو پیسے سے نہیں خریدی جا سکتی ۔ڈاکٹر کو لوگ ایک مسیحا کا درجہ دیتے ہیں۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بیماروں کے لیے مسیحا بنایا تھا ،ان کو یہ معجزہ عطا کیا تھا کہ ان کی دعا اور چھونے سے ہی بیمار اللہ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں میں شفا رکھی تھی ۔بالکل اسی طرح ہمارا ماننا ہے کہ اللہ نے ڈاکٹروں کو بھی اپنی مخلوق کی خدمت کے لیے منتخب کیا ہے اور ان کے ہاتھوں میں شفا دی ہے جو ہر امیر غریب اور پریشان مریضوں کا علاج کر کے ان کی تکلیفوں سے مصیبتوں سے نجات دلاتے ہیں ۔ بدلے میں ڈاکٹرز فیس کے ساتھ ساتھ مجبور لوگوں کی دعاؤں سے بھی فیض یاب ہوتے ہیں۔
کبھی ہر ڈاکٹر کے حصّے میں یہ دعائیں آتی تھیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اب یہ دعائیں صرف ایسے بہت کم ڈاکٹروں کے حصے میں آتی ہے جو اپنے پیشے کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں اور اور دن رات انسانوں کی خدمت کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے بارے ہم سب کی یہی رائے ہوتی ہے کہ وہ مخلص، ہمدرد، فرشتہ صفت ہوتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے یہ رائے اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک ہمارا پالا کسی مکمل پیشہ ور ڈاکٹر سے نہیں پڑتا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ اس دور کے ڈاکٹرز (یہ سبھی ڈاکٹرز کے لئے نہیں ہے) اس پیشے کی عظمت پر دھبہ ہیں۔ جنہوں نے اپنے پیشے کو تجارت بنا دیا ہے۔
لگتا ہے ہمارے ملک میں لالچ و حرص اس قدر بڑھ چکا ہے کہ لوگوں نے مقدس سمجھے جانے والے پیشوں کو بھی ایک کاروبار کا درجہ دے دیا ہے۔ جس کی سب سے واضح مثال ڈاکٹروں کا پیشہ ہے۔جسے تبدیلی، ترقی، روشن خیالی وغیرہ کے پرکشش ناموں پر لوٹا جارہا ہے، بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ وہیں ایک بہت بڑا طبقہ علاج معالجہ کے نام پر ہماری قوم کی صحت سے کھیل رہا ہے۔ وہی صحت جو جانداروں بالخصوص ہم انسانوں کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ اور وہ لالچی طبقہ کچھ ڈاکٹروں کا ہے جو کہ اصل میں قاتل ہیں۔ یہ مال کے حریص لوگ کھلے عام لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کررہے ہیں۔
ڈاکٹرز رنگ برنگی دوائیوں کی پیکٹ کے ساتھ مختلف قسم کے سرنج لے کر نکل پڑے ہیں، نہ صاف صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے نا ہائجین کا۔ وہ سب انسانی جانوں سے کھیل کررہے ہیں ۔ مسیحا کا روپ دھار کر یہ لوگ قاتلوں والا کام کررہے ہیں۔ ہر دوسرے دن غلط دوا، غلط انجکشن سے لوگوں کی ہلاکتوں کی داستانیں اخباروں میں پڑھنے ملتی ہیں۔
کچھ دن پہلے میرے ساتھ ایسا ہی حادثہ پیش آیا جو اس مضمون لکھنے کی وجہ بنا۔ 25 جون 2024ء بدھ کے روز صبح سات بجے بہت ٹھنڈ لگ کر بخار چڑھا۔ ساڑھے آٹھ بجے میرے شوہر نے دوائی دی جو ہمیشہ ہمارے گھر والوں کو دیتے ہیں اور الحمدللہ! اللہ کے فضل و کرم سے ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں۔ کرونا کے وقت بھی ہم کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے تھے۔میرے شوہر ہی دوائیں دیتے رہے۔ انہوں نے آیورویدک کورس کیا ہے مگر دوائی ایلوپیتھک دیتے ہیں ۔پچیس سال تک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے ساتھ رہے ہیں۔ اُس دن بھی میرا بخار ایک گھنٹے میں اتر گیا۔ سارے کمبل ہٹا دیے، پنکھا آن کردیا۔ مگر پھر بھی سب کو ضد تھی کہ آج کسی اور ڈاکٹر کو دکھایا جائے۔ کچھ ساڑھے دس گیارہ بجے ڈاکٹر سدرشن، جو ہمارے علاقے گوریگاؤں ویسٹ میں پریکٹس کرتا ہے، وہاں لے گئے۔ بہت زیادہ بھیڑ تھی۔ ایک وقت میں ڈاکٹر دو تین مریض کو اندر لے رہا تھا۔مجھے بھی کچھ دیر میں ہی اندر بلا لیا۔ایک لیڈی ٹیبلٹ کے پیکٹ بنا رہی تھی جو کھلی پڑی تھی کسی ڈبے میں بند نہیں تھی۔ اندر والے روم میں اور ایک آدمی تھا ،جانے کون تھا، ڈاکٹر یا کمپاؤنڈر۔وہ بھی اندر مریض کو چیک کر رہا تھا ،انجکشن لگا رہا تھا۔مجھے باہر والے بیڈ پر لِٹا کر ڈاکٹر نے معمولی سا چیک اپ کیا۔ دو تین باتیں پوچھیں ، انجکشن لگایا اور دوائی دے کر روانہ کردیا۔ گھر آتے ہی میں ناشتہ کرنے بیٹھی ہی تھی کہ مجھے اپنے پیروں پر لال لال ،بڑے بڑے دھبے دکھائی دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شام تک میرے پورے بدن پر چھالے آگئے۔ اتنے خطرناک کے کسی نے جیسے مجھ پر گرم پانی ڈال دیا ہو۔ میرے لئے اُٹھنا ،بیٹھنا ،سونا محال ہوگیا۔ چھالوں میں پانی بھر گیا۔میں درد سے کراہ رہی تھی۔کسی اور ڈاکٹر کے پاس جانے کی ہمت نہیں تھی۔ فیملی میں اور باہر کے کئی ڈاکٹروں کو تصویریں نکال کر بھیجیں۔ سب کا کہنا تھا معاملہ سیریس ہے۔ہاسپٹل میں ایڈمیٹ ہونا ہوگا۔ اس معاملےمیں آپ کی جان بھی جاسکتی تھی۔ مگر میں ہاسپٹل میں ایڈمیٹ نہیں ہونا چاہتی تھی۔ جس ڈاکٹر نے انجکشن دیا اسے بھی تصویریں لے جاکر بتائی گئیں۔ اس نے کہا میرے پاس لے آؤ میں دوسرا انجکشن لگا دیتا ہوں۔ ڈر کے مارے نہیں گئی۔پہلے کون سا انجکشن لگایا، وہ بتانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ ایم بی بی ایس، ایم ڈی، اسکین اسپیشلسٹ ،سب سے باتیں ہوئیں۔ ایک ڈاکٹر سے ٹریٹمنٹ شروع ہوا۔ آج پندرہ دن ہوئے۔ تھوڑا افاقہ ہوا ہے الحمداللہ۔
اگر کسی یاسپٹل میں ایڈمیٹ ہو جاتی تو ڈاکٹر پر کیس ہو جاتا۔
ڈاکٹر تو مسیحا ہوتے مگر آج کچھ ڈاکٹروں کو چھوڑ سب کو پیسوں کی حرص نے جکڑ لیا ہے۔ پوری دنیا میں اندھا دھند مچی ہے۔اس پاک اور معتبر پیشے کو بھی تجارت بنایا گیا ہے۔ پیسوں کے لیے جان سے کھیل جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کو نیک ہدایت عطا فرمائے اور قوم کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو۔

سیدہ تبسم ناڈکر
9870971871
ایڈیٹر ،گوشہ خواتین و اطفال ،اسٹار نیوز ٹیلی ویژن۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button