مضامین و مقالات

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

عرض داشت
_انتخاب کے نتائج اور حکومت سازی کے باوجود عوام کے بہت سارے سوال اسی طرح قائم ہیں۔_
*صفدر امام قادری*
_شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ_
پارلیمانی انتخاب ۲۰۲۴ء کے نتائج سے جہاں ایک طرف جمہوری اداروں کی طاقت پر بڑے حلقے میں اعتماد کا ماحول قائم ہوا ہے مگر اسی کے ساتھ جمہوری نظام کی حدود کا بھی کہیں نہ کہیں سنجیدگی کے ساتھ احساس ہو رہا ہے۔ آخر یہ کون سا انتخابی نتیجہ ہے کہ جس نے حکومت سازی کر لی، وہ بھی اِتراے ہوئے نظر نہیں آ رہا ہے اور اپوزیشن کے افراد بھی پشیمان اور ہارے ہوئے نظر نہیں آتے۔ حکومت بن جانے کے باوجود عوامی سطح پر نہ جشن کا ماحول ہے اور نہ ہی اقتدار مخالفین کے بیچ ماتم کاسماں ہے۔ وزیرِ اعظم کی بلند بانگ تقریریں بھی سنائی نہیں دے رہی ہیں اور ان کے وہ حلیف جن کو حکومت کے بنانے اور بگاڑنے میں مہارت حاصل ہے، وہ بھی کم و بیش خاموش نظر آ رہے ہیں۔ اس کے بر عکس کانگریس کے لیڈروں کی طرف سے مرکزی حکومت پر روزانہ اور لگاتار وار جاری ہے۔
ان کالموں میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس کے بنیادی نعرے کے مطابق چار سو سے زیادہ پارلیمانی سیٹیں آخر کہاں سے مل رہی ہیں؟ ہر صوبے کے حالات انتخاب کے پہلے بھی آنکھوں کے سامنے تھے اور ماہرینِ اعداد و شمارکی ٹیم بھارتیہ جنتا پارٹی کی بتائی ہوئی سیٹوں کی پہچان زمینی سطح پر نہیں کرا پارہی تھی۔ آخری مرحلے کے بعددو دنوں تک اپنا عوامی اعتماد کھو چکے چینل چار سو سے ساڑھے تین سو سیٹوں کی کہانیاں کہتے رہے مگر نتیجہ آنے تک ٹیلی ویزن اور سیاست کے بڑے بڑے شیر گیدڑ بنتے ہوئے نظر آئے۔جن صوبوں کے قائدین اور خاص طور سے جہاں جہاں وزیرِ اعظم اور امت شاہ نے جان لگا دی تھی، وہاں اڑیسہ کو چھوڑ کر دل پسند نتیجہ کہیں سے سامنے نہیں آیا۔ اتر پردیش، راجستھان اور مغربی بنگال کے بارے میں تو کبھی اس انداز کے نتیجے کی توقع نہ اقتدارکے لوگوں نے کی تھی اور نہ ہی حزبِ اختلاف کے افراد ٹھیک طریقے سے اس کا اندازہ کر سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مخلوط حکومت بنا نے کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے ایسی مجبوری پیدا ہو گئی جسے سرکار کے آخری دن تک بھلانا مشکل ہوگا۔ اَٹل بہاری واجپئی کو جے للیتا نے جس طرح بے خوابی کے دوروںکا شکار بنا دیا تھا، وہ ہماری تاریخ کا حصّہ ہے۔ لوگوں کو اس بات کی توقع ہے کہ تیلگو دیشم پارٹی اور جنتا دَل یونایٹیڈ جیسی حلیف جماعتوں کی جانب سے بھی مرکزی حکومت کو ویسے خطرات کے لیے ہر وقت تیّار رہنا چاہیے۔ ان دونوں پارٹیوں کے قائدین کا ٹریک ریکارڈ اسی انداز کا ہے اور وہ اپنے فائدے کے لیے کسی کی بھی قربانی جائز سمجھتے ہیں۔
اس انتخابی نتیجے کے دور رَس نتائج سے انکار مشکل ہے۔ نریندر مودی مسلسل دس برسوں تک حکومت کرتے ہوئے الیکشن کے اجتماعات میں جس شتر بے مہار کی طرح گفتگو کر رہے تھے، اس کا انجام ڈکٹیٹر شپ ہی ہو سکتا تھا مگر الیکشن کے نتائج نے انھیں خبر دار کیا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو اس انداز سے نہیں چلایا جا سکتا۔ نریندرمودی کو انتخاب کے نتائج نے اس اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ محض سیاسی جملے گَڑھ کر اور لغو بیانی کرکے عوام کو پورے طور پر گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ انھیں اپنی حد معلوم ہو گئی کہ اس کے بعد زوال کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ان کے لیے یہی خوشی کا مقام ہے کہ جوڑتوڑ کرکے اپنے حلیفوں کی مدد سے تیسری بار حکومت بنانے میں وہ کامیاب ہوئے۔ مگر انھیں بھی معلوم ہے کہ اب ان کی عمر کی ہی طرح اس حکومت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا کس بَل وہ نہیں ہے جو پہلے تھا اور جس کی بنیاد پر ملک کو زیر وزَبر کرنے میں وہ قادر تھے۔
اس انتخاب کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ گذشتہ دس برسوں سے کمزور اور نڈھال ہو چکی کانگریس کی جان میں جان آئی ہے۔ اسے اس انتخاب میں یہ سمجھ میں آیا کہ اس کی صلح جوٗ سیاست کے طرف دار ملک کے ہر گوشے میں موجود ہیں اور مرکزی حکومت سے غیر مطمئن افراد کی ایک بڑی تعداد ، کانگریس کے ساتھ آئی ہے۔کانگریس کو یہ بھی فائدہ حاصل ہوا کہ اس کے اندر مضبوط بنے ہوئے پرانے کھائے کمائے لیڈروں کو جلدی سے پھر وزارت میں جانے کا موقع نہیں ملا۔ ایسے لوگ جب تک کمزور نہ ہوں گے، راہل گاندھی کی قیادت قومی سطح پر مستحکم نہیں ہو سکے گی۔ اس لیے کانگریس کو مزید پانچ برس انتظار کرنے کا یہ فائدہ ملے گا کہ ایک نئی قیادت پیدا ہوگی اور راہل گاندھی سپریم لیڈر کی حیثیت سے سب کے لیے قابلِ قبول ہو جائیں گے۔ کھڑگے کو عہدۂ صدارت دے کر کانگریس نے جو تجربہ کیا، اس میں کانگریس صد فی صد کامیاب رہی جس کا نتیجہ ووٹ کے تناسب اور سیٹوں کی تعداد میں دیکھنا چاہیے۔
اتر پردیش آبادی اور پارلیمانی حلقوں کے اعتبار سے ہندستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی وہاں سے ۷۳؍سیٹیں لے کر مرکز میں اپنی اقتدار کا جلوہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ڈھائی برس کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ بڑی طاقت کے ساتھ اتر پردیش کے وزیرِ اعلا بنائے گئے۔ گذشتہ سات آٹھ برسوں میں اتر پردیش کی حکومت نے جس طرح سے کام کاج کیاہے اور خاص طور پر وزیرِ اعلا نے جس انداز میں اپنی تقریریں کی ہیں، وہ ہندستانی سیاست کے ایک مشکل دَور کی کہانی ہے۔ اتر پردیش میں ہر چند کہ اکھلیش یادو نے پورے پانچ برس وزیرِ اعلا کی حیثیت سے کام کیا مگر وہ اپنے والد اور چچا اور ان کے دوستوں کی متوازی حکومت کے سامنے پسپا ہوتے رہے بل کہ اسی چکرویو میں ان کی اپنی سرکار بھی چلی گئی۔ سات برس اقتدار سے باہر رہتے ہوئے اکھلیش کو خود سے پارٹی کو چلانے کا ہنر سیکھنے کا موقع ملا جس کا نتیجہ موجودہ انتخاب میں ان کی اور کانگریس کی ملی جلی حیرت انگیزکامیابی بھی ہے۔ کمال تویہ ہے کہ سماج وادی پارٹی اور کانگریس نے مل کر اتر پردیش میں ایک سے ایک بڑے سورما، صرف اسمرتی ایرانی کو بھی نہیں ہرایا بل کہ وزیرِ اعظم کی جیت کے فرق کو اتنا گھٹا دیا کہ انھیں احساس ہو جانا چاہیے کہ دس برس کی اقتدار کے باوجود انھیں اپنے حلقۂ انتخاب میں چاہنے والے بہت تیزی سے گھٹنے لگے ہیں۔ لوگوں کو یاد ہے کہ اس ملک میں ۱۹۷۷ء میں اندرا گاندھی وزیرِ اعظم رہتے ہوئے لوک سبھا کا انتخاب ہارگئی تھیں۔ انتخاب کے نتائج سے ایک روز پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر جے پی نڈّا صاحب اپنے ایک ٹی وی نشریے میں اعلان کرتے ہوئے پائے گئے تھے کہ و زیرِ اعظم آٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے جیتیں گے۔ اس کے لیے وزیرِ اعظم کو اپنے حلقۂ انتخاب میںبار بار جلسے کرنے پڑے۔ روڈ شوکی بھی باری آئی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سارے بڑے لیڈروںکی وہاں ڈیوٹی لگائی گئی تھی تب جا کر وہاں وزیرِ اعظم فتح یاب ہو سکے۔
کانگریس یا انڈیا محاذنے یہ اچھا کیاکہ مرحلۂ اوّل میں ہی اس بات کا اعلان کر دیا کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھے گی اور سرکار بنانے میں اسے دل چسپی نہیں۔ حالاںکہ اسی کے ساتھ اس نے بھارتیہ جنتا پارٹی پر یہ حملہ بھی کیا کہ ووٹ کے نتائج یہ واضح کر رہے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے عوامی اعتماد کھو دیا ہے اور اسے حکومت بنانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ کانگریس نے حکومت بنانے کی کوشش نہیں کرکے ارکانِ پارلیمنٹ اور چھوٹی بڑی پارٹیوں کی خرید و فروخت کے امکانات پر روک لگا دی۔ یہ ہر اعتبار سے اچھا ہوا۔ گذشتہ دس برسوں میں حکومت سے باہر رہتے ہوئے کانگریس نے جس طرح تپسّیا اورریاضت کی ہے، اس کا ابتدائی پھل تو انھیں اس انتخاب میں مل گیا مگر پانچ برس اسی طرح خود کو سادھے رکھّیں تو ۲۰۲۹ء کے انتخاب میں ہندستان کے عوام انھیں تھالی میں سجا کر حکومت پیش کر دیں گے۔ شرط یہ ہے کہ کانگریس نے عام لوگوں کے بیچ جانے کا جو پھر سے سلیقہ اپنایا ہے، اسے جاری رکھیں۔
کانگریس کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ قومی سطح پر اس کی تنظیم براے نام رہ گئی ہے۔ اس کے صوبائی صدر ناکارہ ہیںاور اعتماد کے لائق نہیں ہیں ، ایسے میں ضلعی اکائیوں اور گانو تک کی تنظیم کے بارے میں کیا سوچا جا سکتا ہے۔ راہل گاندھی کاجو انداز ہے، اس میں ان کی قیادت تو ابھرتی ہے مگر کانگریس کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ کھڑا نہیں ہو پاتا جس کا یہ نتیجہ طَے ہے کہ پھر اگلی بار اسی طرح نئے سروں سے ان علاقوں میں مشقّت کرنی ہوگی۔کانگریس کے موجودہ صدر پرانے رہ نما ہیں، اپوزیشن میں رہتے ہوئے ان کے لیے یہ پہلا نشانہ ہونا چاہیے کہ کانگریس کا کل ہند تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کیاجائے۔ جہاں جہاں صوبائی انتخابات قریب ہیں وہاں پہلے توجّہ کریں۔ اس انتخاب سے جو عوامی توقعات ابھری ہیں، اس کا تقاضہ یہی ہے کہ کانگریس کو میدان سے دور نہیں ہٹنا چاہیے۔ کانگریس کا یہ بھی فرض ہے کہ انڈیا محاذ کے دائرے کو نہ صرف وسیع کریں بل کہ اپنی حلیف جماعتوں کی ذہن سازی بھی کرتے رہیں۔ انھیں الگ تھلگ چھوڑ دینے اورمکمّل طور پر آزاد رکھنے کا وہ بھی نتیجہ ہوتا ہے جو بہار میں دیکھنے کو ملا۔ لالو یادو اور تیجسوی یادو کی نجی اَکڑ کے مقابلے اکھلیش یادو کی طرح ایمان دارانہ محاذ کے طور کو اپنانے سے بہار میں پانچ سات سیٹیں این۔ ڈی۔ اے۔ کی اور کم ہو سکتی تھیں لیکن تیجسوی یادو کی ناتجربہ کاری نے انڈیامحاذ کوشدید نقصان پہنچایا۔ آیندہ انتخاب تک ایسی ہر جماعت کو کانگریس کی قیادت سے ایک واضح ہدایت رہنی چاہیے۔ تب ہی یہ ممکن ہے کہ یہ محاذ ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرے گا اور ملک میں حقیقی طور پر اچھے دن آئیں گے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button