
ایک دن ،دودن،تیسرے دن سے شروع
از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹ9986437327
مسلمانوں کے درمیان کئی سارے مسائل ہیں،ان مسائل کے تعلق سے غوروفکرکرنے اور انہیں حل کرنے کیلئے وقتاً فوقتاً مسلمانوں کا دانشور طبقہ کوششیں کرتاہے اور ان مسائل کو مشترکہ طورپر حل کرنے کیلئے تنظیموں،اداروں اور کمیٹیوں کاقیام کرتے رہتے ہیں۔اندازہ لگایاجائے تو ہر چھوٹے سے چھوٹے شہرمیں مسلمانوں کی تنظیمیں اور ادارے موجودہیں اوریہ ادارے و تنظیمیں مسلمانوں کی قیادت کے دعویدارہیں۔وہیں دوسری جانب بھارت میں ایک ایسی تنظیم بھی ہے جو قریب 90 سالوں سے اس ملک میں راج کررہی ہے اور اس تنظیم کا نام آر ایس ایس ہے۔یہ تنظیم 1924 میں قائم ہوئی تھی اوراگلے سال اس تنظیم کے 100 سال پورے ہونےوالے ہیں۔آر ایس ایس نے گذشتہ99 سالوں کے درمیان اپنے ہندوتوا ایجنڈوں کو نافذکرنے کیلئے پوری ایمانداری،حکمت اور یکسوئی کے ساتھ کام کیاہے۔دفتروں سے لیکر پولیس تھانوں،گرام پنچایت سے لیکر پارلیمنٹ،ڈاکٹر سے لیکر کولی، ٹیچر سے لیکر طالب العلموں تک نے آر ایس ایس نے اپنے ایجنڈوں کو مکمل کرنےوالے لوگ پیدا ہوئے ہیں۔آر ایس ایس صرف ایک تنظیم نہیں ہے بلکہ ایک فکرہےا وریہ فکر ہندوتوا آئیڈیالوجی اور کمزورپر طاقتورکوحائل کرنے کا ادارہ ہے۔پچھلے99 سالوں کے درمیان آر ایس ایس نے کبھی بھی اپنی آئیڈیالوجی میں کمپرامائز نہیں کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم نے ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک کئی الیکشن دیکھے،لیکن آر ایس ایس کے بنیادی لیڈروں نے کبھی بھی براہ راست الیکشن نہیں لڑا،نہ ہی کسی عہدے کی توقع کی ہے۔انہوں نے ہندوتوا آئیڈیالوجی کونافذکرنے کیلئے جوقدم اٹھایاتھا،اُسی آئیڈیالوجی پر قائم ہیں،البتہ انہوں نے اپنی تنظیم کی تائیدکے ذریعے سے گرام پنچایت کے صدر سے لیکر ملک کے وزیر اعظم تک کا انتخاب کیاہے۔اب بات کرتے ہیں مسلم تنظیموں کی جو شروعات میں تعلیم،سماجی انصاف،یتیم خانوں کا قیام، مدرسوں کا قیام، تعلیمی اداروں کاقیام، غریبوں کی مدد، اتحادِ ملت،اتحادِ بین المذاہب، معذوروں کی خدمت وغیرہ کے مقاصدلیکر قیام کرتے ہیں۔پورے شہرکے عمائدین، ذمہ داروں اور مالداروں کو بُلا کر ایک میٹنگ کرتے ہیں،اس کے بعد عہدیداروں کاانتخاب ہوتا ہے، صدروسکریٹری چنے جاتے ہیں،ٹرسٹ یا کمیٹی کا رجسٹریشن بھی ہوتاہے،پھر کچھ دن اس ٹرسٹ یا کمیٹی کے ذریعے ایک اسٹیج پروگرام کئے جاتے ہیں،جو تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی بات کرتاہے وہ بچوں میں پین پینسل تقسیم کرکے سوشیل میڈیامیں پبلیسٹی پاتاہے،جو سماجی انصاف کی بات کرتاہےوہ گلی کی سڑکوں اور نالوں کی مرمت کا مطالبہ کرتاہے،اس کیلئے میمورنڈم دیاجاتاہے۔اسی طرح سے جس مقصدکیلئے کمیٹی تنظیم یا ٹرسٹ بنایاجاتاہے وہ کچھ دن جوش میں رہتے ہیں۔مسلمانوں کی کمیٹیوں کا فارمولہ یہ ہے کہ ایک دن خدمت کرینگے،دوسرے دن شہرت لینگے اور تیسرے دن سیاست میں اُترجائینگے۔ایک دو تین دن کے اس فارمولے کے بعدالیکشن میں اپنی قسمت آزمانے کیلئے اترینگے،یاپھر الیکشن کے امیدواروں کو لیکرپھڑپھڑاتے ہوئے دکھائی دینگے۔سوال یہ ہے کہ اگر سیاست میں آناہے تو سیدھے طریقے سے کیوں نہیں آتے،گھما پھراکر قوم،خدمت،جذبات اور قیادت کا لباس اوڑھ کر اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے کیوں تنظیموں کا استعمال کیاجاتاہے۔یہ صورتحال کسی خاص شہریا علاقے کی نہیں بلکہ پورے ملک کی یہی حالت ہے،ملک کی بڑی بڑی تنظیموں کے سربراہان،ایم پی،راجیہ سبھاممبرس، کمیشن اور اکاڈمیوں کے چیرمین بننے کی دوڑمیں لگے ہوئے ہیں،تو چھوٹے شہروں میں لوگ تنظیمیں بناکر کارپوریٹر،کائونسلر یاپھر ایم ایل سی اور چیرمین بننے کی خواہش رکھے بیٹھے ہیں۔سیاست میں جانا غلط بات نہیں ہے،لیکن سیاست میں اپنا مقام بنانے کیلئےجو پس پردہ ایجنڈے ہوتے ہیں وہ غلط ہیں۔تنظیمیں ہوں تو آر ایس ایس کی طرح اگر سیاست کرنی ہوتو بی جے پی کی طرح کرنی ہوگی۔کیونکہ آر ایس ایس کبھی الیکشن میں حصہ لینے کی بات نہیں کرتی اور بی جے پی کبھی آر ایس ایس کا ساتھ ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی۔خدمت کیلئے تنظیموں کو مختص کیاجائے،ان تنظیموں کے ذریعے سے قوم وملت کی فلاح وبہبودی کیلئے کام کیاجائے۔یہی حالت آج جماعتوں، مسجدوں کی کمیٹی کا بھی ہوچکاہے،جن مساجدکو شریعت نافذکرنے کیلئے استعمال کرناہے،وہاں پر شرارتوں کا سلسلہ جاری ہے اورجن جماعتوں کے علماء سے اچھی نسل کی تربیت کی توقع کی وہ ٹکٹوں کے بٹوارے،الیکشن کیلئے سفارشات، عہدوں کیلئے لین دین کا سلسلہ چلایاجارہاہے۔اگرواقعی میں قومِ مسلم کی حالت بدلنی ہےتو مستقل مزاجی اور مستحکم عمل پیرا ہونا پڑیگا۔