مضامین و مقالات

وہاٹس ایپ گروپ بنانے سے حالات تبدیل نہیں ہوگے منصوبوں پر عمل درآمد ضروری ہے۔ وہی قوم زندہ رہتی ہے جو منصوبوں میں رنگ بھرتی ہے۔

از۔ ذوالقرنین احمد (چکھلی ضلع بلڈانہ)
9096331543
السلام علیکم
امید ہے آپ لوگ خیریت سے ہونگے
گروپ سے متعلق چند گزارشات عرض کرنی ہے گروپ بنانے کا مقصد ہمارے سامنے ہونا چاہیے اگر ہماری معاشی حالت کو بہتر بنانے اور نوجوانوں کو روزگار سے جوڑنا ہے اپنی کمیونٹی کے افراد کو خودکفیل بنانا ہے۔ معاشرے سے بے حیائی فضول رسم و رواج کا خاتمہ کرنا ہے۔ تو اس کے لیے زمین پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جن افراد کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے زمیندار ہے یا کوئی بڑے بزنس مین ہے یا بڑا کاروبار ہے ہنر مند ہے ہول سیلر ہےتو ایسے افراد آگے بڑھ کر قوم کے بے روزگار نوجوانوں، بچوں کے لیے کچھ ٹارگیٹ سامنے رکھتے ہوئے کہ ہر سال اتنے نوجوانوں کو انکے قدموں پر کھڑا کرنا ہے اور بے روزگاری دور کرنی ہے۔ قوم کی معاشی حالت انتہائی بدحالی کا شکار ہے اسی وجہ سے چند ہزار روپے کیلئے ہمارے معاشرے میں مرد و خواتین اور بچیں تک سود کے کاروبار میں ملوث ہوتے جارہے ہیں جو بہت بڑا گناہ ہے سود کے متعلق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا اعلان جنگ ہے سود لینے دینے والے اس میں گواہ بننے والے لکھنے والے سب کے سب سود کے کاروبار میں ملوث ہے سود معاشرے میں ناسور کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے  اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم کچھ ایسی پالیسی تشکیل دے جس کے ذریعے ہم اپنے معاشرے سے سود کا خاتمہ کر سکے بچت گٹ اور بینک کے سود کی وجہ سے عزتیں اور عصمتیں نیلام ہورہی ہے لیکن ہم اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔
قرض وصول کرنے والوں کا رویہ ہماری قوم کے ساتھ کس طرح ظالمانہ اور بد اخلاق ہے ہمیں اس بات احساس تک نہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آج کیا کر سکتے ہیں کہ آئیندہ آنے والی نسلوں کو اس بدترین ظلمت اور حرام خوری سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور موجودہ معاشرے کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ ہم اپنے ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کریں جو لوگ بدحالی میں ہے یا حرام کاموں کی طرف جارہے ہیں انہیں اس دلدل سے نکالنے کیلئے چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کروانے کیلئے ان کی مدد کریں اور ان کے کاروبار میں اچھے سے جم جانے کے بعد جو رقم دی گئی تھی اس کی تھوڑی بہت رقم ان سے وصول کی جائے تاکہ انھیں ذمہ داری کا احساس رہے کہ ہماری مدد کس لیے کی گئی تھی۔
ہمارے پاس زکوٰۃ کا اتنا اچھا نظام ہونے کے باوجود ہماری غربت اور بدحالی دور نہیں ہورہی ہے دن بہ دن ہماری قوم معاشی بدحالی کی پستیوں میں گرتی جارہی ہے اگر صحیح طریقہ سے زکوۃ کی رقم کا استعمال کیا جائے اور صحیح ہاتھوں میں اس رقم کو پہنچانے کی کوشش کی جائے تو معاشی حالت کو درست ہونے اور سود حرام کاموں سے بچنے کیلئے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ جو لوگ صاحب استطاعت ہے تو وہ لوگ آگے بڑھ کر اپنے کندھوں پر ذمہ داریاں لے صرف گروپ بنانے اور کمیٹی تشکیل دینے صدر سکریٹری بنا کر زمینی سرگرمیوں کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دینے سے حالات کبھی بھی درست نہیں ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اپنے معاشرے کو پاک صاف بنانے اپنی نسلوں کے تحفظ کیلئے آج ہی ہمیں ایسی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس سے ہم سود میں گرفتار اور بے روزگار نوجوانوں کوحرام کاموں کی طرف جانے والوں کو حلال روزگار سے جوڑ سکے۔ معاشرے میں پھیل رہی بے حیائی اور ناجائز عوامل کا خاتمہ کرسکے‌۔ اس کے لیے نیچے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
1۔ جو نوجوان اور شادی شدہ افراد پریشان ہے روزگار کرنا چاہتے ہیں ان کے ہنر اور پسند کے مطابق ٹھیلے وغیرہ تقسیم کر کے اور جو مال فروخت کرنا چاہتے ہیں ہوسکے تو وہ بھی دو چار روز کا انتظام کروا کر دے۔
2۔ جو نوجوان پڑھیں لکھیں ہیں یا کوئی ہنر مند ہے تو انھیں روزگار کے مواقع فراہم کریں۔
2۔ جو لوگ اعلی تعلیم یافتہ ہے ان کے لیے سرکاری یا پرایوئٹ جابز سے جوڑنے کے لیے اپنی پوری کوشش کریں۔
3۔ جو طالب علم ذہین ہیں اور اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن مالی حالت سے مجبور ہے تو ان کے لیے امداد کروا کر یا کوئی ایک شخص اس بچے کی مکمل تعلیم کا خرچ اپنے ذمہ لے اور اس کے لیے شرط یہ رکھیں کے وہ نوکری پیشہ ہونے کے بعد ادارے کی پوری مدد کریں گا یا پھر ایک بچے کا مکمل تعلیم کا خرچ ادا کریں گا یا جو بھی اس کی استطاعت میں ہوسکے مدد کرے گا۔
4۔ جو بیوہ خواتین ہے یا یتیم لڑکیاں ہے انھیں کوئی ہنر سکھانے یا گھر میں رہے کر کوئی کام سے جوڑنے کے لیے مدد فراہم کرنی ہے۔
5۔ جو نوجوان فضول ہوٹل اور چوک چوراہوں پراپنا وقت برباد کر رہے ہیں انھیں کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے انھیں خیر کے کاموں مدد کیلئے متوجہ کیا جائے۔
6۔ شہری سطح پر یا علاقے بسی کی سطح پر اپنے آبادی کا تناسب معلوم کرکے وہاں کی غریب، یتیم، بیوہ، بے بس، مجبور افراد اور خاندان کی ہر مہینے راشن پہنچانے کے لیے بیت مال کے نظام کو قائم کرنا۔
7۔ معاشرے میں پھیل رہی بے حیائی کے خاتمے کے لئے ہر مہینے خواتین اور بچے بچیوں کے لئے بغیر کسی مسلکی امتیاز کے اجتماع کا اہتمام کرنا۔
8۔ معاشرے میں پھیل رہی فضول رسم رواج کے خاتمے کیلئے نوجوانوں میں شعور پیدا کرنا۔
9۔ شراب نوشی، نشہ، وغیرہ میں ملوث افراد کو بری عادتوں سے نجات دلانے کیلئے کونسلنگ سینٹر قائم کرنا ۔
10۔ اسی طرح مرد و خواتین اور نوجوانوں کے لیے پری میرج، اور پوسٹ میرج یعنی شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی زندگی کے بارے میں کاؤنسلنگ کے لئے کونسلنگ سینٹر کا قیام کرنا۔ گھریوں مسائل کو کورٹ پولس اسٹیشن نا لے جاتے ہوئے میرج کونسلنگ سینٹر پر حل کرنے کیلئے کوشش کرنا۔ ساتھ ہی پیام نکاح سینٹر کو قائم کرنا۔
یہ چند گزارشات ہے جس پر آج کے حالات میں توجہ دینے کی ضرورت ہے اور عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہیے جن لوگوں تک بھی یہ تحریر پہنچ رہی ہے وہ ان گزارشات پر عملدرآمد کریں اور آگے پہنچانے کی کوشش کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button