
ہم سب دھرے ہیں
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ریگنگ کے دوران یہ جملے تمام ہاسٹل میں گونجتے تھے۔’ہم سب دھرے ہیں ‘. سینئیرس کے سخت رویے جونئیرس کو یہ نعرہ لگانے پر مجبور کرتے تھے کہ آپ سب یہ تسلیم کر لیں کہ آپ دھرے ہیں یعنی گدھے ہیں، بےوقوف ہیں اور جہاں سے بھی آئے ہیں وہاں آپ نے کچھ نہیں سیکھا ہے یا جو کچھ بھی سیکھا ہے اسے اپنی زندگی سے ڈیلیٹ کر دیں اور نئے سرے سے زندگی کی شروعات کریں۔ آپ جو یہاں سیکھیں گے وہی زندگی کا اصل سبق ہوگا اور اسی سبق کے مطابق آپ کو اپنا مستقبل طے کرنا ہے۔ اس کے بعد یہی سب جونئیر دھرے بعد میں آنے والے اپنے جونئیر طلبا کو یہی درس دیتے نظر آتے تھے۔ دراصل اس دھراپن کی روایت اے ایم یو طلبا کے لئے کبھی مخصوص تھی ہی نہیں۔ یہ تو بس ایک علامتی شناخت تھی کہ ہم آپ سے بڑے ہیں اور جو ہم کہہ رہے ہیں وہی درست ہے۔
لیکن اگر اس دھرے پن کو پورے بھارت کے عوام کے نظریہ سے دیکھیں تو پائیں گے کہ اتنی بڑی قابل فخر جمہوریت میں عوام کا دھرا پن یہ ہے کہ وہ خود سے خود کے لئے سرکار منتخب کرتے ہیں مگر سچائی تو یہی ہے کہ وہ خود سے خود پر سرکار کو مسلط کرلیتے ہیں۔
رہنمائے ملک عوام کو سرکاری سہولت فراہم کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں اور امیر طبقوں کو نجکاری کی پوری چھوٹ میسر ہو جاتی ہے۔ بھارت کے 85سے 90فیصد غریب لوگ 10سے 15فیصد امیر لوگوں کو مزید امیر بنانے کے لئے ووٹ کرتے رہے ہیں۔کیونکہ انہیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ جسے ووٹ کر رہے ہیں اس کا اگلا قدم کیا ہوگا وہ آپ کے بن کر رہیں گے یا پھر پالا بدل لیں گے۔ وہ آپ کو تعلیم یافتہ بنانے کے لئے ووٹ مانگتے ہیں اور گولی مارنے اور اسلحہ تیز کرنے کی صلاح دینے لگتے ہیں۔
نیتائوں کو برا بھلا کہہ دینا ایک عام سی بات ہے ، مگر اس بات پر غور کرنا زیادہ اہم ہے کہ جمہوریت میں آخر عوام کی حیثیت کیا ہے؟ مزید برآں یہ کہ جمہوریت کے لئے عوام کا جاہل ہونا زیادہ بہتر ہے یا پھر بیدار۔ اس کا سیدھا ساجواب یہ ہے کہ جاہل عوام ہو تو لیڈروں کا فایدہ اور بیدار و تعلیم یافتہ عوام ہوتو دیش کا فائدہ۔
بے وقوف وہ ہوتے ہیں جو بے وقوف بننے والوں کو بے وقوف نہیں بناتے۔لیڈر یہی کام کرتے ہیں وہ جتنا عوام کو بے وقوف بنائیں گے اتنے ہی عقلمند مانے جائیں گے۔ بھارت کی جمہوریت عقلمند خاص اور بےوقوف عوام کے مضبوط ستون پر کھڑی ہے۔ اسی لئے عوام کے لیڈران عوام کو بس ایک ووٹ مانتے ہیں اور اس کا سہارا لے کر خود کو راجہ کے درجہ میں رکھ لیتے ہیں۔
قانون, انتظامیہ ، میڈیا، حفاظتی عملہ یا پھر تعلیم و صحت کا شعبہ یہ سب کے سب یوں تو عوام کے فلاح و بہبود کے لئے قائم کئے گئے ہیں لیکن سیاسی نظریہ سے دیکھیں تو یہ نیتاوں کے فلاح و بہبود کے لئے ہمیشہ ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔
آج کا سیاسی منظرنامہ اس معنی میں بہتر ہے کہ اس سرکار نے درج بالا تمام باتوں کو درست ثابت کر دیا ہے جس ادارے و تنظیموں کو عوام اپنے انصاف کا سہارا تسلیم کرتے رہے تھے وہ سارے کے سارے سرکاروں کے سروکار سے منسلک نظر ائیں۔ کم از کم عوام کو اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہم سب دھرے ہیں اور لیڈروں کی سختی کے سامنے نعرہ بازی کے لئے مجبور کئے جاتے رہے ہیں۔ سماجی نا انصافی، زمینی تنازعات، قتل کے مقدمے اور ٹھگی کے معاملات کا فیصلہ جہاں بیس سے پچیس سال میں نہیں آتا وہاں سیاسی مفاد کا فیصلہ 10دنوں میں نمٹ جاتا ہے۔ راہل کا تازہ معاملہ دیکھ لیجئے عوام کے دھرے پن کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ وہ ووٹ دھرم کے نام پر دیتے ہیں اور آرزو ملازمت کی رکھتے ہیں۔ مہنگائی اور بدعنوانی کا روتے ہیں۔
مجھے کبھی لیڈروں کی کارستانی پر اعتراض نہیں رہا ہمیشہ ان لوگوں پر غصہ آتا رہا جنہوں نے بدعنوان ، جاہل اور پیشہ ورانہ مجرموں کو لیڈر بنایا۔ بدعنوان لیڈر نہیں ہوتے عوام ہوتے ہیں۔ بے وقوف، جاہل، لالچی اور خود غرض عوام بھارت کی ترقی کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے اپنے لیڈروں ، ذات بھائیوں اور مذہبی جنونیوں کی ترقی کو ہی ترجیح دیتے رہے ہیں۔ عوام سب سے بڑے دھرے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اے ایم یو جونئیرس طلبا کی طرح نعرے نہیں لگاتے ۔ وہ نعروں کی تجارت کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہوتے ہیں۔
زین شمسی