
آٹھ مسلمانوں کا ارتداد اور قوم کا رویہ
ذاکر حسین
بانی:الفلاح فاؤنڈیشن (بلڈ ڈونیٹ گروپ)
اتر پردیش کے ضلع امبیڈکر نگر سے پورے ملک کے مسلمانوں کیلئے ایک افسوسناک خبر سامنے آرہی ہے۔ وہاں سے کچھ نٹ مسلمانوں کے مرتد ہونے کا معاملہ روشنی میں آیا ہے۔ ہندی میڈیا "پنچ جنیا” میں شائع خبر کے مطابق اترپردیش کے اکبر پور، جلال پور اور ٹانڈہ تحصیل کے تین خاندانوں کے آٹھ افراد نے اسلام مذہب چھوڑ کر سناتن ہندو مذہب اختیار کر لیا ہے۔ ان سبھی نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر میں اپنے بدلے ہوئے ناموں کے ساتھ حلف نامہ جمع کرایا۔ مذہب کی تبدیلی کے اس عمل میں انہوں نے ایودھیا کے مشہور مہنت راجو داس اور سماجی کارکن اروند پانڈے کا ساتھ دیا۔ اکبر پور تحصیل کے گاؤں افضل پور سداری فرید پور کے رہنے والے ننھکو کے بیٹے خلیل نے اپنا نیا نام رادھے شیام رکھا ہے۔ اسی طرح ان کے خاندان کے دیگر افراد نے بھی اپنے نام بدل کر ہندو نام رکھ لیے ہیں۔ خلیل کا بیٹا زبیر اب سوربھ بن چکا ہے۔خلیل کی بیٹی صابرین اب شبھانگی بن چکی ہے۔ عظمت علی اب سنویر بن چکاہے۔ برکت علی اب شانی کے نام سے جانا جائے گا۔ خاندان کا کہنا ہے کہ چار نسلیں پہلے ان کی ذات ‘کہار’ ہندو ذات کے نام سے جانی جاتی تھی، جو روایتی طور پر کہار برادری سے تعلق رکھتی تھی۔ اس خاندانی شناخت کو واپس اپنانا چاہتے ہوئے انہوں نے سناتن دھرم کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔ تحصیل ٹانڈہ کے گاؤں ہنسوار لکھن پور کے محمد ادریس کے بیٹے تسلیم نے گرجیش نام اپنایا جبکہ اس کی بیوی نورجہاں اب گڑیا بن چکی ہے۔جلال پور تحصیل کے جیت پور شیو پال گاؤں کے ہیرالال کے بیٹے نور محمد نے رام بابو نام کا انتخاب کیا۔ اس نے اپنی مسلم نٹ ذات کو چھوڑ کر ہندو نٹ ذات میں واپس آنے کا اعلان کیا۔ یہل لوگ ضلع مجسٹریٹ کے دفتر گئے اور اپنے نام اور مذہب کی تبدیلی کا حلف نامہ جمع کرایا، جسے ڈپٹی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ روی کانت چوبے نے قبول کر لیا۔ ڈی ایم نے اس عمل کو قانونی طور پر رجسٹر کیا اور انہیں ان کے نئے ناموں کی شناخت دی۔ ایودھیا کے مہنت راجو داس نے کہا کہ یہ خاندان رضاکارانہ طور پر اپنے آباؤ اجداد کی روایات کی طرف لوٹ رہے ہیں۔واضح رہے کہ اتر پردیش میں سر گرم الفلاح فرنٹ نامی تنظیم گزشتہ کئ برس سے نٹ مسلمانوں کی تعلیم پر کام کر رہی ہے اور تنظیم سے وابستہ افراد متعدد بار ملی تنظیموں کو نٹ برادری کے مرتد ہونے کے خدشات سے آگاہ کر چکے ہیں، لیکن ابھی تک ان کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہیکہ مزید نٹ و دیگر مسلمان مرتد نہ ہوں، اس کیلئے سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئے، اس پر گفتگو اور کوئی ٹھوس لائحہ عمل کی اب سخت ضرورت ہے۔ نٹ سمیت دیگر غریب مسلم بستیوں میں مکاتب اور مساجد کی تعمیر سے ارتداد کے خطرے کا ہم ٹال سکتے ہیں۔