
مضامین و مقالات
آر ایس ایس کی سازش اور ہماری غفلت کی نیند!
ریاض فردوسی۔9968012976
اے چشمِ اشک بار ذرا دیکھ تو لے
یہ گھر جو بہ رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو
گزرے ہوئے کئی سالوں میں فلموں کے ذریعے ہندو قوم کو بیدار کرنے کی مہم جاری اور ساری ہے۔حتیٰ کے مسلم کرداروں کو نہایت اخلاقی پستی کا شکار ہوتے اور ہر برائی میں ملوث ہونے کی عکاسی کی گئ تھی اور کی جارہی ہے۔پھر ایک بہترین نام کے ہندو کے ذریعے اس کو راہ راست پر لانے کا تماشہ ہوتا ہے۔
ہندو قوم کے نوجوانوں اور بچوں میں یہ دکھا دکھا کر بہادری اور مسلمانوں سے نفرت اور دشمنی کو ہوا دی جارہی ہے،مثلا گولی لگنے کے بعد بھی ہندو کردار کانا مرنا اور مرتے مرتے بھی حق اور صداقت کاپیغام دینا،یہ کام بخوبی کئی سالوں میں کیا گیا۔یہاں تک کہ ایک نسل تیار ہو گئی کہ جس کہ ذہن میں ہندو ناموں کی بے انتہا عزت ہو گئی،اور مسلمانوں کو بزدل اور وطن عزیز بھارت کا باغی قرار دیا جا کا ہے۔
فلموں کے ذریعے مسلم لڑکی کا ہندو لڑکے کے ساتھ عشق کی داستان،پھر شادی اور بچے اس کے ذریعے،ہماری بچیوں کی ذہن سازی کی گئی کہ غیر مسلم سے شادی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔مذہبی شعار کو بوجھ سمجھنے والے لوگوں کی ملکی سطح پر خوب پزیرائی کی گئی اور مذہبی ذہن رکھنے والوں عالموں اور ڈارھی ٹوپی پہننے والے لوگوں کو تذلیل کا شکار بنایا گیا۔
اس میں سب سے اہم کردار میڈیا اور کچھ ایمان فروش اور جاہل علماء نے اہم کردار ادا کیا۔ہندو نوجوانوں کے ذہن میں فلموں اور کتابوں کے ذریعے یہ ڈال دیا گیا کہ مسلمان غیر ملکی ہیں،اور ملک ہندوستان کے دشمن ہیں۔تعجب خیز بات ہے کہ یہ کام اس قوم نے کیا جو خود مصر سے نکالی گئی تھی۔جس کو اللہ نے ناپاک قرار دیا تھا۔وہی یہودی قوم جو آج بشکل برہمن ہے ہندوستان میں داخل ہوئی،اور یہاں کے آبائی شہریوں کو ناپاک قرار دے دیا اور خود مقدس بن کر ان پر حکومت کرنے لگی۔بھارت کے آبائ لوگوں کا بے انتہا قتل عام کیا اور کرایا۔اب چند سالوں میں جب ان برہمنوں کے پاس سالہ سال کی بے انتہا ناپاک سعی کے بعد حکومت آئی ہے تو یہ کھل کر اپنی ذلالت اور گمراہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
مسلم حکمرانوں سے جڑے ناموں کو تبدیل کرنے کا موضوع ہو،ٹرمپ کی فتح پر خوشی منانا، LOVEجہاد،کبھی ماب لینچنگ،کبھی نام بدلنے کے بہانے،کبھی تین طلاق کے بہانے،پھر CAA,NRC,CAB, کے ذریعے ہمیں حراساں کرنا۔اس کے پیچھے دو مقاصد ہیں۔پہلے ملک کے اندر جتنی پریشانی ہے،چاہے مہنگائی کا معاملہ ہو،یا گرتی ہوئی GDP ہو،جو وعدے حکومت نے جزباتی عوام سے کئے تھے،ان کا پورا نہ ہونا،کئی بڑے گھوٹالے کا ہونا،پوری دنیا میں سیکولر شبیح کا برباد ہو جانا،دوسرا مقصد مہان رام راجیہ قائم کرنا،جس میں مسلمانوں،عیسائیوں،نچلی ذات کے لوگوں اور دیگر غیر برہمن(بڑی برادریوں کوچھوڑ کر) کو دوئم درجے کا شہری قرار دینا شامل ہے۔دراصل مسلمان ان کی راہ میں سب سے بڑے رکاوٹ ہیں تو یہ ہمیں مسلسل دھمکیوں سے پریشان کر رہے ہیں کہ حق کی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے۔
پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف کہیں بھی سازش ہوتی ہے،اس کے پس پشت یہودی تنظیمیں ہوتی ہے،اور ہندوستان میں جتنی بھی ہمارے خلاف پروپگنڈے ہوتے ہیں ان سب کے پیچھے آرایس ایس ہوتی ہے۔ابھی کچھ دن قبل آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر چونکا دیا تھا کہ ہنگامی صورت حا ل میں ان کی تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفہ میں 20لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو جمع کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے۔معروف قلمکار اے جی نورانی صاحب نے اپنی کتاب The RSS: A Menace to India میں آر ایس ایس کے حوالے سے کئی اہم انکشافات کیے ہیں۔
نورانی کے بقول اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر ٹکی ہے۔آر ایس ایس ملک میں ایک ہندو راشٹر کے قیام کے لیے شروع سے سرگرم ہے۔
عصر حاضر کے مسلمان اسپین میں اسلام اور مسلمانوں کے زوال کی تاریخ اور ہندستان میں اُن کے اِرد گِرد رَچائی جانے والی گہری سازشوں سے پوری طرح ناواقف ہیں۔
آرایس ایس ابتدا سے ہی ہندوتوا کو فروغ دے رہی ہے۔بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، بن واسی کلیان سمیتی، اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد،شیو سینا،گؤ رکھشا سمیتی،اور ان جیسی متعدد تنظیمیں اس کی محاذی شاخیں ہیں جو الک الگ علاقوں میں الگ الگ طریقے سے اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان سبھی تنظیموں کا نصب العین ہندوتوا کا فروغ ہے۔بھارتی جنتا پارٹی اس کی سیاسی شاخ ہے۔
آج لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان اپنی ڈگریوں کے ساتھ بے کار بیٹھے ہیں۔ ملک میں بے چینی روکنے کے لیے ان لاکھوں نوجوانوں کو کہیں نہ کہیں مصروف رکھنا ضروری ہے۔ آر ایس ایس کی مختلف تنظیمیں ان بے روزگار نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کر رہی ہیں۔نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، ملازمتوں کا فقدان پھر سوشل میڈیا کی آزادی یہ سب مل کر ذہریلی فضاتیار کر چکی ہے جو ملک میں تشدد میں اضافے کا سبب بنی ہے۔ان ذہرسے بجھے ہوئے نوجوانوں اور بزرگوں کے اور ایسے بہت سارے لوگوں کے ذہنوں کے فروغ اور مستحکم ہونے سے ملک کی سلامتی کو سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا۔آگے چل کر کہیں یہی خانگی جنگ کا سبب نہ بن جائے۔اگر ہمارے ملک میں ہندو راشٹر کا قیام ہوتا ہے تو سب سے بڑا خطرہ دلتوں، ایس سی، ایس ٹی، بدھسٹوں،سکھوں،عیسائیوں، آدی واسیوں، لنگایت طبقہ کیلئے،مراٹھا، مہار، کنبھی،دھنگر و دیگر ان سماج کے لوگوں کو ہوگا جن کا تعلق پسماندہ طبقات سے ہے۔ ہندوتوا وادی تنظیمیں یا لوگ خود عیسائیوں،مسلمانوں اور ان سبھی پسماندہ طبقات کے لوگوں کو ملیچھ سمجھتی ہے۔(جنکی ماں بہنوں کو اپنی شرم گاہ تک کوڈھکنے کی اجازت نہیں تھی)
1925 ء سے ان کی یہ جنگ منظم ہوچکی ہے،اور ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی جدوجہد جاری ہے۔ان عناصر جن کیلئے وہ پیشوائی راج زیادہ آئیڈیل ہے،جس میں صرف برہمن کا بول بالا تھا۔آج نوجوانوں کے ذہنوں میں جھوٹی، من گھڑت اور بے بنیاد کہانیوں کی بنیاد پر بنائی گئی نام نہاد تاریخ کا بول بالا ہے،جس میں مسلم حکمران ظالم اور جابر ہیں،اور اس پروپگنڈے کی بنیاد پر آر ایس ایس اب مکمل کامیابی سے ہم کنار ہے۔کسی بھی قوم کے لیے اس کی شناخت کو بچانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔مسلمانوں کی شناخت ہی،اس ملک سے ختم کر دی گئی۔آزادی کی لڑائی میں مسلمانوں کے کردار کو ختم کر دیا گیا۔نئے نئے ہیرو پیدا کر دیے گئے۔
اور ایسے پر خطر وقت میں ملت کے جسم میں ایسے (نام نہاد) دانشور ایک ناسور کی مانندہیں جن میں ملت کے تعلق سے رجائیت (optimism) اور positivity تو یکسر مفقود نظر آتی ہے لیکن قنوطیت(pessimism)
، پژمردگی،ملامت زدگی، مایوسی اور بے حوصلگی کی negativity کو انہوں نے اپنے تھاٹ پراسس کی لائف لائن بنا رکھا ہے۔اپنے ذاتی معاملات، کیرئر، بزنیس اور مادّی ترقی کے میدانوں میں یہ لوگ بہت حوصلہ مند، رجائیت پسند، اور پازیٹو واقع ہوتے ہیں۔
لیکن تعلیمی میدان میں ہم بہت پیچھے ہیں۔مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا حال 2016/17 کے لئے اعلیٰ تعلیم کا ایک جائزہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس جائزے کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کل زیر تعلیم طلبہ میں مسلمانوں کی نمائندگی چار اعشایہ نو فیصد ہے جو کہ دلتوں اور قبائل سے بھی کم ہے۔ دلتوں کی نمائندگی 14 اعشاریہ 2 فیصد اور ایس ٹی کی نمائندگی 5 اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ دیگر پسماندہ طبقات کی نمائندگی 34 اعشاریہ 4 فیصد ہے۔ آسانی سے سمجھنے کے لئے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہر بیس میں سے صرف ایک طالب علم مسلمان ہے۔ اعلیٰ تعلمی اداروں میں مسلمان طلبہ ہی نہیں بلکہ اساتذہ کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ دلت اساتذہ کی تعداد 8 اعشاریہ تین فیصد ہے جو کہ مسلمانوں کے مقابلے تقریبا دوگنی ہے۔ دیگر پسماندہ طبقات کے اساتذہ کی تعداد مسلمان اساتذہ کے مقابلے تقریبا 8 گنا زیادہ ہے۔
یقینااللہ تعالیٰ عدل کااوراحسان کااوررشتے داروں کودینے کاحکم دیتا ہے اوروہ بے حیائی اوربُرائی اورزیادتی سے روکتا ہے،وہ تمہیں نصیحت کرتاہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔(سورہ النحل آیت۔90)
حدیث پاکﷺ میں وارد ہے کہ کوئی گناہ ظلم و زیادتی اور قطع رحمی سے بڑھ کر ایسا نہیں کہ دنیا میں بھی جلدی ہی اس کا بدلہ ملے اور اخرت میں بھی سخت پکڑ ہو۔اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی، قانونی، اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ ادا کیے جائیں۔اللہ تعالی تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو، اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں: پہلی چیز فَحْشَآء ہے جس کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو، فحش ہے۔ مثلًا بخل، زنا، برہنگی و عریانی، عمل قوم لوط، محرمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا اور بدکلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے، مثلا جھوٹا پروپیگنڈا، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے اور ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا، اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمائش کرنا وغیرہ۔ہم مسلمان نبی رحمت ﷺ کے امتی ہیں جس طرح ہمارے آقا ﷺ پوری کائنات کے لئے رحمت ہیں ای طرح ہمیں بھی ایسے کام کرنے ہیں کہ ہم لوگوں کے لئے رحمت بن سکے۔
کیا ہم نے اپنا فرض امتی ادا کیا؟ملک میں معصوم بچیوں کی عزتوں کو تار تار کیا جاتاہے،ہم کیوں غافل رہتے ہیں؟ کیوں نہیں ہمارے علماء فوراََ اسلامی قانون پیش کر دیتے ہیں کہ زنا کی یہ سزا ہے،قرآن نے بہت سخت فیصلہ کیا ہے۔کیوں نہیں اپنی باتوں کو غیروں کے سامنے پیش کر کے تبلیغی فرض ادا کرتے ہیں؟ آخر لوگ ہمارا ساتھ کیوں دیں؟ ہم نے کیا لوگوں کا ساتھ دیا ہے؟ ہم تو صرف رونا جانتے ہیں۔مسلم قوم کو بھیک مانگنے کی عادت پڑچکی ہے۔رونے دھونے کی بیماری لگ گئی ہے۔خود کچھ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ہمیشہ دوسروں کے سامنے رونا جانتے ہیں۔کوئی کیوں آپ کی لڑائی میں شامل ہو؟
جب ہم اپنے غیر مسلم بھائی کے غم میں شامل نہیں ہوتے؟تعجب خیز بات ہے جس قوم کو حاکم بنا کر حکومت کرنے بھیجا تھا آج وہی قوم گداگر کی شکل اختیار کر چکی ہے۔مشہور کہاوت ہے شیربورھا ہو کر بھی گھاس نہیں کھاتا،ہم بھی اللہ کے شیر ہیں،ہر مسلمان اللہ کا سپاہی ہے۔
کون ومکاں کے تاجدار ﷺ کا غلام اور ہاتھ پھیلائے؟
نبی ملاحم ﷺ کا امتی اور اپنے حق کے لئے روئے؟ سلطان کائنات ﷺ کے در کا بھکاری اور غیروں کے سامنے بھیک مانگے؟ (الا ماشاءاللہ)
مسلمانوں کو
Attack is the Best Defense
کی طرز پر کام کرنا ہوگا۔چاہے کھل کر غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے کی وعوت ہو۔
آخر میں!
کی محمدسے وفاتونے تو ہم تیرے ہیں ﷺ
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں