تازہ ترین خبریں

بسم اللہ الرحمن الرحیم "علم وفن کے نیر تاباں”تعارف و تبصرہ مفتی خالد نیموی قاسمی،صدر جمعیت علماء بیگو سرائے

کہا جاتا ہے کہ یہ صدی کتاب کے ذوق و شوق کی آخری صدی ہے.

لیکن کئی جہات سے یہ کلیہ درست نہیں معلوم ہوتا ہے.
اس لیے کہ آج بھی بہت سی کتابیں پورے سج دھج کے ساتھ مارکیٹ میں آرہی ہیں اور لوگوں کے درمیان مقبولیت کا مقام حاصل کر رہی ہیں؛ کبھی تو کتاب کی کشش، کبھی صاحبِ کتاب کی کشش، کبھی جس شخصیت کی طرف اس کتاب کا انتساب ہے، اس شخصیت کی کشش
لوگوں کے مابین اس کتاب کو مقبولیت عطا کرتی ہے.
ایسی ہی ایک کتاب” علم و فن کے نیر تاباں” کے عنوان سے ہمارے سامنے ہے. اور مرتب کی عنایت سے آج ہی رجسٹرڈ ڈاک سے موصول ہوئی ہے. اس کتاب کے بارے میں امید ہے کہ مقبولیت کا مقام حاصل کرے گی. اس کتاب کو ہمارے عزیز دوست ممتاز صاحب قلم مولانا ڈاکٹر نور السلام ندوی نے کمال مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ مرتب فرمایا ہے. یہ کتاب حضرت مولانا ہارون الرشید علیہ الرحمہ کی ہمہ جہت شخصیت پر اہل علم کے گراں قدر مضامین کا حسین گلدستہ ہے. اور اپنی ظاہری و معنوی خوبیوں کے لحاظ سے یہ کتاب "عروس جمیل” در لباس حریر "کی مصداق ہے.
اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر مقالہ نگاروں نے پوری محنت اور دقت نظر سے اپنے اپنے مقالوں کو تیار کیا ہے اور مرتب کا کمال ہے کتاب میں یہ مقالات اس ترتیب سے رکھے گئے ہیں کہ مولانا کی زندگی گویا اس کتاب میں سماگئی ہے. امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب آئندہ مستقبل قریب میں مولانا کی شخصیت پر مزید کام کرنے والوں کے لئے
سنگ میل اور بنیادی مرجع ثابت ہوگی اور اہلِ علم اس کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے مزید تحقیقاتی کام انجام دے سکیں گے.
یہ امر بھی باعث مسرت ہے کہ اس کتاب میں صرف مولانا ہارون الرشید علیہ الرحمہ کے احوال ہی کو قلمبند نہیں کیا گیا ہے؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ خطہ جس سے وہ تعلق رکھتے تھے؛ جمال پور دربھنگہ بلکہ پورے بہار کی تاریخ کو ابتدائیہ میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے اور اچھی تحقیق پیش کی گئی ہے.
مقدمہ میں متھلا، متھلانچل، اور ترہت کی تاریخی پس منظر کو بھی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.
بعض تاریخی حقائق کے سلسلے میں
حوالہ درج کرنے کا اہتمام کیا جاتا؛ تو کتاب کی رونق میں اور تاریخی استناد میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا. مثلاً” علمی مقام” کے زیر عنوان
جن اکابر کی آمد کا تذکرہ کیا گیا ہے؛
ان کا حوالہ درج کر دیا جاتا تو بڑا اچھا ہوتا.
ہر باب کے آغاز پہ مناسب حال اشعار
کی سیٹنگ نے کتاب کے حسن کو اور دوبالا کردیا ہے.
مثلا:باب اول نقوش حیات ہے؛ تو اگلے صفحہ پر میں مناسب حال شعر درج ہے:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی
اسی طرح باب دوم مشاہدات و تاثرات کا آغاز ہوتا ہے تو اس سے اگلے صفحے میں یہ شعر درج ہے.
آنے والی نسلیں ہم کو بھول سکے ناممکن ہے قدم کے مٹتے مٹتے راہ گزر جائیں گے
باب سوم تدریس و خطابت پر مشتمل ہے؛ اس سے اگلے صفحہ پر یہ شعر درج ہے
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
باب چہارم تعلیمی و تنظیمی خدمات پر مشتمل ہے اور اس کے لیے بر محل شعر پسند کیا گیا ہے:. نہ پوچھ مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
باب پنجم تحریری نمونہ پر مشتمل ہے اور اس کے لیے بر محل شعر منتخب کیا گیا ہے:
اٹھائےکچھ ورق لالے نےکچھ نرگس نےکچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری.
ممتاز اہل قلم کے کی تحریر کی خوشبو نے اس کتاب کے بام و در کو معطر کر دیا اور امید ہے کہ قاری کا مشام جاں بھی معطر ہوجائے گا. اور کیوں نہ ہو جس کتاب میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سیدابواختر قاسمی، مولانا انیس الرحمن قاسمی، مولانا مشہود احمد ندوی، مولانا امیر معاویہ قاسمی، مفتی ثناء الہدی قاسمی ،مولانا رضوان احمد ندوی، ڈاکٹر نور السلام ندوی؛ مفتی ڈاکٹر اشتیاق احمد قاسمی، مولانا بدرالحسن قاسمی؛ مفتی عین الحق امینی قاسمی ،مولانا طارق شفیق ندوی، مولانا رحمت اللہ ندوی مفتی ظفر عالم ندوی ؛مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی مفتی اسعد پالن پوری ،مفتی جمال الدین اور مولانا سفیان احمد کے مضامین ہوں، اس کی اثر انگیزی کے بارے میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟؟ .
یہ کتاب کل 256 صفحات پر مشتمل ہے اور پٹنہ سبزی باغ اور دربھنگہ کے کتب خانوں سے یا مرتب سے رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے.
تاثرات و تبصرہ :بندہ خالد نیموی قاسمی صدر جمعیت علماء بیگوسرائے ورکن انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز
مورخہ 17 /12 /2022

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button