مضامین و مقالات

پٹھان۔۔۔۔۔۔ پٹھان۔۔۔۔۔۔ پٹھان

 

شیخ رکن الدین ندوی نظامی

عامر خان کی فلم "لال سنگھ چڈھا” کی طرح شاہ رخ خان کی آنے والی فلم "پٹھان” بھی آج کل سرخیوں میں ہے۔۔۔
ملک میں مسلم منافرت کی انتہاء کو اس سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے.
ہر چیز، ہر بات میں مسلمانوں سے نفرت اور مسلم مخالفت ہی مخصوص لوگوں کا ایجنڈا بنا ہوا ہے۔۔
لال سنگھ چڈھا کتنا کاروبار کری؟
آمدن کتنی ہوئی؟
کامیاب رہی یا ناکام؟
بائیکاٹ کا اثر کتنا ہوا؟ تفصیلات سب جانتے ہی ہیں۔۔۔
اب "پٹھان” کے ساتھ بھی یہی سب کچھ کرنے کی مہم چل رہی ہے۔۔
ٹی وی ڈبیٹ، سیاسی گلیاروں میں گرماگرم بیان بازی، ہندتوا تنظیموں کی جانب سے مخالفت و بائیکاٹ کے اعلانات۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ.
بائیکاٹ کی اپیلوں اور نفرت بھرے ٹی وی ڈبیٹ شوز کا کیا اثر ہوگا؟ آنے والے دنوں میں اس کا اندازہ ہوگا۔۔۔
مگر جس بات کو لے کر بائیکاٹ کی اپیلیں کی جارہی ہیں، ماحول کو گرمایا جارہا ہے اور مسلم منافرت میں شدت لائی جارہی ہے، کیا وہ معقول اور جائز وجہ بھی ہے؟
اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔
پٹھان کی تھوڑی سی تفصیلات کو بھی پیش نظر رکھئے:
ڈائرکٹر : سدھارتھ آنند
اسکرین پلے: سدھارتھ راگھون
اسٹوری: سدھارتھ آنند
پروڈیوسر : آدتیہ چوپڑا
سینما ٹو گرافی: سچت پولسے
👈ایڈیٹر: عارف شیخ
میوزک: وشال شیکھر
پروڈکشن : یش راج فلمس
اداکاری :
👈شاہ رخ خان
دیپیکا پاڈوکون
جان ابراہام
آشوتوش رانا
گوتم روڈے
ڈمپل کپاڈیا
سدھانت گھیگڈمال
شاجی چودھدری
گیوی چہال
👈سلمان خان
ریتک روشن
ڈائرکشن سے لے کر پروڈکشن تک آٹھ شعبے ہیں
جن میں سات لوگ ہیں اور ساتوں میں صرف ایک مسلم نام ہے اور تقریباً گیارہ مختلف اہم ادا کار ہیں۔۔ ان میں صرف دو مسلم نام ہیں۔۔۔
ان کے علاوہ کام کرنے والے، کاسٹیومس، میک اپ، میوزک، جونیر آرٹسٹ، مزدور وغیرہ سینکڑوں لوگ ہیں جن میں بھی مسلم کم اور غیر مسلم ہی زیادہ ہوں گے۔۔۔
ایسے میں صرف
ایک اداکار کو ٹارگیٹ کرنا،
پھر بائیکاٹ کی اپیل کرنا،
قومی میڈیا فورمس پر ڈبیٹ چلانا۔۔۔۔
یہ سب راست طور پر مسلمانوں کے کردار کو ہر سطح پر قابل نفرت بنانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔۔۔
تعلیم سے دور کردیا گیا۔۔
ملازمتوں سے محروم کردیا گیا۔۔
سماج میں اچھوت بنایا گیا۔۔
سیاسی میدان میں تو سب سے زیادہ پچھڑے پن کے شکار بنائے گئے۔۔
اس قسم کی منظم جدوجہد کے بعد فلم انڈسٹری بھی نفرت کی بھینٹ چڑھا دی جارہی ہے۔۔۔
یہ الگ ایشو ہے کہ
فلم بندی جائز یا نا جائز؟؟
جائز کی صورت کیا ہوسکتی ہے؟
اور ناجائز امر پر اتنی بحث؟
اچھا ہی ہے نا مسلمان انڈسٹری چھوڑ دیں۔۔۔
ان سب سوالوں سے پرے ہوکر نفرت کی بنا پر مرتب ہونے والے سماجی اثرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔
سیاسی مقابلہ آرائی میں جس طرح یکا و تنہا کیا گیا اور یہ غلط فہمی عام کردی گئی کہ مسلمان الیکشن جیت نہیں سکتا۔۔۔
اور مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں کہ ؤوٹ کا اختیار بھی ختم ہو (گرچہ میری نظر میں اس کا فائدہ ہی ہے)۔۔
اسی طرح دو چار خان مسلم ۔۔جو فلم انڈسٹری پر راج کررہے ہیں۔۔ کا زور و دبدبہ ختم ہو اور اس انڈسٹری میں بھی مسلمانوں کو اچھوت بنائے جانے کی کوشش ہورہی ہے۔۔۔
بھاری بجٹ کی بڑی فلموں میں ایک دو بار اگر ناکام بنایا جائے تو پھر کوئی پروڈیوسر آگے نہیں آئے گا اور کوئی ڈائرکٹر کسی مسلمان کو کام نہیں دے سکے گا۔۔۔۔
اسی قسم کی پالیسی یے، جس پہ پچھلے سات دہائیوں سے منظم و منصوبہ بند طور پر عمل کیا جارہاہے۔۔۔
فلم ”پی کے” میں عامر خان کے ساتھ کام کرنے والوں میں بےشمار غیر مسلم ہیں جن میں سے کسی کو بھی ان کے بھگوانوں کے کردار پر کسی کو نہ صرف اعتراض نہیں تھا بلکہ خوشی خوشی کردار ادا کئے۔۔۔ اور پی کے نے کمائی بھی اچھی کی۔۔۔ مگر نفرت کے سوداگروں نے ”لال سنگھ چڈھا” سے انتقام لیا۔۔۔۔
اور اب پٹھان میں بھگوا رنگ کی بکنی پہننے والی دیپیکا پڈوکون کی سزا شاہ رخ کو دی جارہی ہے۔۔
تاکہ مسلم کردارکشی سے نفس کی تسکین ہو۔۔۔
اعتراضات کئے جائیں یا سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے تو پروڈیوسر، ڈائرکٹر، کاسٹیوم مینیجر اور خود پہننے والی کو کھڑا کیا جائے۔۔۔۔
اور کچھ خواتین ڈیبیٹرس کی جانب سے آواز اٹھائی جارہی ہے کہ سبز رنگ کی بکنی کیوں نہیں پہنائی گئی؟
مگر یاد رکھنے کی بات ہے کہ اسلام رنگوں میں یقین نہیں رکھتا بلکہ عقیدہ و نظریہ میں یقین رکھتا ہے، اور نظریہ بھی اتنا مضبوط اور مبنی بر حقیقت کہ اس کے تسلیم و اطاعت ہی میں انسانیت کی فلاح و بہبود اور نجات و کامرانی ہے، اور وہ ہے
اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔۔

اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
17/12/2022

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button