مضامین و مقالات

اب کی بار کس کی جیت، کس کی ہار

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
دہلی نگر نگم، ہماچل پردیش اور گجرات اسمبلی کے لئے ووٹ ڈالے جا چکے ہیں ۔ نگر نگم پر گزشتہ 15 سال سے بی جے پی کا قبضہ ہے ۔ پانچ سال قبل 2017 میں اسے 181 سیٹوں پر جیت ملی تھی ۔ پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لینے والی عام آدمی پارٹی 48 سیٹوں کے ساتھ دوسرے اور کانگریس تیسرے نمبر پر تھی ۔ اسے صرف 27 وارڈ جیت کر اطمنان کرنا پڑا تھا ۔ اس مرتبہ نگرنگم میں اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے تشہیر میں پوری طاقت جھونک دی ۔ مقامی لیڈران کے ساتھ کئی ریاستوں کے وزیر اعلیٰ اور مرکزی وزراء نے ماحول بنانے کے لئے روڈ شو اور پبلک میٹنگیں کیں ۔ عام آدمی پارٹی نے بھی ماحول کو خوب گرمایا ۔ پچھلی بار سہ طرفہ مقابلے میں بی جے پی کو بڑی کامیابی ملی تھی ۔ اسے مجموعی طور پر 36 فیصد اور سب سے زیادہ مشرقی دہلی سے 39 فیصد ووٹ ملے تھے ۔ عآپ کو 26 فیصد اور کانگریس جسے 2012 میں 30 فیصد ووٹ ملے تھے وہ 21 فیصد ووٹوں پر سمٹ گئی تھی ۔ اس وقت تین نگموں میں 272 وارڈ تھے ۔ بی جے پی نے انہیں ملا کر ایک نگم اور وارڈوں کی تعداد کم کرکے 250 کر دیا ہے ۔ نئی حد بندی کی وجہ کچھ وارڈ چھوٹے اور کچھ بڑے ہو گئے ہیں ۔
کارپوریشن 2017 کے انتخاب میں بی ایس پی دوڑ سے باہر ہو گئی تھی ۔ اس مرتبہ قسمت آزما رہے 1349 امیدواروں میں سے 132 بی ایس پی کے امیدوار ہیں ۔ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی نے 250 سیٹوں پر الیکشن لڑا جبکہ کانگریس نے صرف 247 امیدوار ہی میدان میں اتارے ہیں ۔ اس کے علاوہ جے ڈی یو، اے آئی ایم آئی ایم، این سی پی، انڈین مسلم لیگ، سی پی آئی، سی پی آئی ایم وغیرہ کے علاوہ 382 آزاد امیدوار انتخاب کا حصہ بنے ۔ اس بار 709 خواتین، 640 مردوں نے الیکشن لڑا ہے ۔ خواتین کو عآپ نے سب سے زیادہ 138 جبکہ بی جے پی نے 136 اور کانگریس نے 129 ٹکٹ دیئے ہیں ۔ 2017 کے انتخاب میں دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو 17 فیصد ووٹ ملے تھے ۔ اس مرتبہ پچھلے الیکشن سے کم پولنگ ہوئی ہے ۔ اگر آزاد اور دیگر پارٹی کے امیدواروں میں ووٹ بٹے تو اس کا اثر نتائج پر پڑ سکتا ہے ۔ جو رجحان ابھی تک سامنے آئے ہیں ان سے ایگزٹ پول کے نتائج پر سنگین سوال کھڑے ہوتے ہیں ۔ ایگزٹ پول کرنے والی سبھی ایجنسیوں نے دہلی نگر نگم میں عآپ کو 145 سے 171 وارڈ میں کامیاب ہوتا ہوا دکھایا تھا اور بی جے پی کی کراری ہار کا اشارہ دیا تھا لیکن رجحانات میں دونوں کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔
ہماچل پردیش میں بی جے پی، کانگریس کو باری باری موقع دینے کی روایت رہی ہے ۔ ہماچل اسمبلی کی سبھی 68 سیٹوں پر 12 نومبر کو ووٹ ڈالے گئے تھے ۔ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کا تعلق ہماچل سے ہے ۔ اس لئے الیکشن سے پہلے ریاست کی روایت ٹوٹنے کا قیاس لگایا جا رہا تھا ۔ مگر انتخابات کے نتائج کا اندازہ لگانے والی ایجنسیوں نے ہماچل میں سخت مقابلے کی بات قبول کی ہے ۔ بلکہ کانگریس کی حکومت بننے کا اشارہ دیا ہے ۔ 2017 میں بی جے پی نے 44 سیٹیں جیت کر حکومت بنائی تھی ۔ جبکہ حکومت بنانے کے لئے صرف 35 سیٹوں کی ضرورت تھی ۔ بھاجپا نے پریم کمار دھومل کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنایا تھا لیکن وہ سوجان پور سیٹ سے الیکشن ہار گئے تھے ۔ ان کی جگہ جے رام ٹھاکر کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا ۔ بی جے پی کی کارکردگی سے عام ناراضگی تھی مگر اگنی پتھ اسکیم نے آگ میں گھی کا کام کیا ۔ بڑی تعداد میں نوجوانوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا ۔ وزیراعظم جب جون میں دھرم شالا پہنچے اس وقت احتجاج کر رہے 300 نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ اعداد بتاتے ہیں کہ ہماچل میں تقریباً 2.8 لاکھ لوگ ڈیفینس سروسز سے جڑے ہیں ۔ ان میں سے اسی فیصد کا تعلق کانگڑا، اونا، ہمیر پور ضلعوں سے ہے ۔ کانگڑا میں 15، اونا، ہمیرپور میں 5 – 5 سیٹیں ہیں ۔ دوسری طرف دھومل کو اس مرتبہ بی جے پی نے ٹکٹ نہیں دیا ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق باغی بی جے پی کی ہار کا سبب بنیں گے ۔
بی جے پی 1995 سے گجرات کے اقتدار پر قابض ہے ۔ 2017 میں اسے 99 اور کانگریس کو 77 سیٹیں ملی تھیں ۔ اس وقت عآپ نے 29 سیٹوں امیدوار اتارے تھے ۔ لیکن تب اس کا کھاتا بھی نہیں کھل پایا تھا ۔ اس مرتبہ پہلے مرحلے کی 89 سیٹوں پر 63.31 ووٹ ڈالے گئے جبکہ 2017 میں ان پر 66.75 ووٹنگ ہوئی تھی ۔ دوسرے مرحلے کی 93 سیٹوں پر 2017 کے (69.2 فیصد) مقابلہ 5 فیصد کم ووٹنگ ہوئی ہے ۔ گزشتہ تین انتخابات کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی پولنگ کم ہوا تو بی جے پی کی سیٹیں گھٹی ہیں ۔ مثلاً 2017 میں تین فیصد ووٹنگ کم ہونے پر بی جے پی کو 16 سیٹوں کا نقصان اور کانگریس کو فائدہ ہوا تھا ۔ موجودہ الیکشن میں ہوئی کم ووٹنگ کا کس کو فائدہ ملے گا اور گجرات میں عام آدمی پارٹی کی جارحانہ تشہیر کا نتائج پر کیا اثر ہوگا یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔ لیکن اس مرتبہ عوام میں جو مدے زیر بحث رہے ان سے گجرات کی انتخابی نبض کو سمجھا جا سکتا ہے ۔
گجرات میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے والے نوجوانوں کی تعداد 11.74 لاکھ ہے ۔ ان میں روزگار کو لے کر فکر مندی دکھائی دی ۔ مہنگائی، کاروباریوں پر بی جے پی کا دباؤ، کسانوں کے مسائل، موربی حادثہ میں حکومت کی لاپرواہی، حکومت کی کارکردگی سے ناراضگی اور بی جے پی کارکنوں کا غرور، انا اور من مانی عام لوگوں کی گفتگو کا موضوع رہی ۔ گجرات میں بی جے پی کی وہی حالت ہے جو کبھی بنگال میں لیفٹ کی تھی ۔ لیفٹ کو لگتا تھا کہ کوئی اسے بنگال کے اقتدار سے بے دخل نہیں کر سکتا ۔ مگر گجرات کے عوام بنگال سے مختلف ہیں ۔ کانگریس کی ڈور ٹو ڈور کمپین، بھارت جوڑو یاترا اور عام آدمی پارٹی کی دستک سے بی جے پی کی مشکل بڑھی ہے ۔ اسی لئے وزیراعظم نریندرمودی اور وزیر داخلہ امت شاہ گجرات میں پورا وقت دے رہے ہیں ۔ کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور مرکزی وزیروں کی فوج انتخابی مہم میں لگی ہوئی ہے ۔ اے آئی ایم آئی ایم بھی گجرات میں قسمت آزما رہی ہے ۔ مانا جا رہا ہے کہ احمدآباد اور سوراشٹر میں وہ کچھ ووٹ کاٹ سکتی ہے ۔ زمینی سطح پر بدلاؤ کی بات ہو رہی ہے مگر کئی رائے دہندگان نے بی جے پی کے ساتھ جانے کی بات کہی ۔ ان کا خیال ہے کہ پہلی مرتبہ مودی جی کے ذریعہ گجرات کو ملک کی قیادت کا موقع ملا ہے ۔ اس لئے وہ بی جے پی کے ساتھ جائیں گے ۔ نتیجہ کے طور پر ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، آدی واسی، کسان اور عام لوگوں کے ووٹ کسی ایک پارٹی کو نہ مل کر بی جے پی، کانگریس اور عآپ میں بٹ رہے ہیں ۔ اس سے نہ صرف انتخابی ماحول بدلا بلکہ بی جے پی کی دھڑکن بھی بڑھی ہے ۔ بوکھلاہٹ میں بی جے پی اپنے پرانے ایجنڈے پر لوٹتی دکھائی دی ۔ اس نے 2002 کے گجرات فسادات کی یاد دلائی اور قومی ایشوز پر ووٹ مانگے ۔ یہاں تک کہ اس نے انتخابی ضابطہ اخلاق کا بھی خیال نہیں رکھا مگر انتخابی کمیشن نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا ۔ ایگزٹ پول کے تمام سروے کا اندازہ گجرات میں بھاجپا کی واپسی کا ہے لیکن گراونڈ رپورٹ سخت مقابلے کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔ انتظار کیجئے 8 دسمبر کو اس راز سے بھی پردہ اٹھ جائے گا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button