
اخترالایمان۔ میرے پسندیدہ شاعر اب
ا ارادہ ہے کہ پتھر کے صنم پوجوں گا
تاکہ گھبراٶں تو ٹکرا بھی سکوں ،مر بھی سکوں
نہیں پتہ کہ اخترالایمان اپنے ارادے میں کتنا کامیاب ہوٸے مگر مر ضرور گٸے آج ہی کے دن۔ آج کےدور میں لوگ سنگ و سنگ دلی کے پجاری اس ٸے ہو رہے ہیں کہ وہ مرنے سے بچ سکیں ، نہیں جانتے کہ وہ روز مر رہے ہیں أور روز جی رہے ہیں۔
ایمان کی بات یہ ہے کہ اخترالاایمان جسم سے زیادہ روح کی شاعری کرتے رہے۔ کبھی کبھی وہ کذب و افترا سے کام لیتے ہوٸے آزاد منش سیلانی لڑکے کو اسی کی آرزوٶں کے لحد میں پھینکنے کی کوشش کرتے لیکن وہ لڑکا پھر سامنے آکر کہ منہ چڑھا جاتا کہ دیکھو میں زندہ ہوں۔
زندگی اختر الایمان کے لٸے اس ریشہ زدہ ہاتھوں کی طرح تھی جو سیاہ تاریک راتوں میں ٹمٹماتے چراغ کو جلانے کی کوشش میں اپنے ہاتھ جلا لینا معمول سمجھتا تھا۔ اخترالایمان بہت کچھ کرنے کوشش کرتے انہیں ہرجگہ بدعنوانی اور بے ضمیری کا شاٸبہ نظر آجاتا۔ بہت جستجو و تلاش کے بعد ان کے ذہن نے سوچا کہ سمندر، ایک عظیم سمندر جو اپنی لہروں کو ساحل میں مدغم ہو جانے کے بعد بھی اس کا انتظار کرتا ہے کیوں نہ میں بھی اس کاحصہ بن جاٶں۔ لیکن کیسے ؟ بہت سوچنے کے بعد انہوں نے سمندر میں کر دیا پیشاب۔
یہ زندگی بھی کوٸی زندگی ہے پل پل میں
ہزار بار سنبھلتا ہوں اور مرتا ہوں
اور بنت لمحات کے ساٸے میں اخترالایمان یہ کہہ کر سو جاتے ہیں۔
تمہارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے
اسے بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہ
غنیم نور کا حملہ کہو اندھیروں پر
دیار درد میں آمد کہو مسیحا کی
رواں دواں ہوئے خوشبو کے قافلے ہر سو
خلائے صبح میں گونجی سحر کی شہنائی
یہ ایک کہرا سا، یہ دھند سی جو چھائی ہے
اس التہاب میں، اس سرمگیں اجالے میں
سوا تمہارے مجھے کچھ نظر نہیں آتا
حیات نام ہے یادوں کا، تلخ اور شیریں
بھلا کسی نے کبھی رنگ و بو کو پکڑا ہے
شفق کو قید میں رکھا صبا کو بند کیا
ہر ایک لمحہ گریزاں ہے، جیسے دشمن ہے
نہ تم ملو گی نہ میں، ہم بھی دونوں لمحے ہیں
وہ لمحے جا کے جو واپس کبھی نہیں آتے!
گویا اخترالایمان عالم ارواح سے ہمیں لمحوں کی قدر کرنے کا درس دیتے ہیں کہ وہ لمحے جو ہمیں میسر ہیں وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔
اس لٸے خداٸے عزو جل کی نعمتوں کا معترف ہونا چاٸیے خواہ اس نے لٸیموں کو خسروی دی ہے اور ہرزہ کاروں کو تونگر بنایا ہے۔
زین شمسی