مضامین و مقالات

کی محمد سے وقا تو نے تو ہم تیرے ہیں

ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی

کانپور میں چار ستمبر 2025 کو عید میلاد النبی کے جلوس سے ایک دن قبل سید نگر، راوت پورہ تھانہ کے تحت جلوس کی مجلس انتظامیہ کی کچھ لڑکوں نے،، آئی لو محمد،، کے بورڈ آویزاں کیےتھے۔ اس رات عموما محلوں میں چراغاں بھی کیا جاتا ہے۔ مختلف قسم کے پوسٹر، جھنڈے اور بینر بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہ سب جلوس کے استقبال اور عشق نبی سے اظہار کے متعلق ہوتے ہیں ا۔یسا پورے ملک میں ہر سال ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ رام نو می چونکہ قریب تھی اورمحلہ کے قریب ہی رام نومی کا پنڈال بھی لگنا تھا اس لیے کچھ ہندوتوا وادی تنظیموں نے اس طرح کے پوسٹر پر اعتراض کیا اور شکایت کی کہ اس سے ان کے عقائد کو ٹھیس پہنچ رہی ہے ۔چنانچہ ان کے،، عقائد کے احترام ،،میں پولیس نے یہ بینر اتروانے کی کوشش کی جب لوگوں نے یہ بینر نہیں اتارے تو پولیس نے خود آگے بڑھ کے یہ بینر ہٹا دیے اور راوت پورہ تھانے کے ایس آئی پنکج شرما کی ایف آئی آر پر دو درجن مسلمانوں کے خلاف نقص امن کے اندیشے ،فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوشش ، دوسرے فرقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ،بعد ازاں ان میں سے کچھ کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔پولیس کے ڈی آئی جی کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی مواقع پر ایک نئی روایت پیدا کر کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی ایک دانستہ کوشش تھی جو اتر پردیش میں ناقابل قبول ہے اور مجرمین کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔
یہاں تک تمام تفصیلات تقریبا سب کے علم میں ہیں مگر ان تفصیلات کے یہاں اعادہ کا مقصد ان سوالات کا پس منظر واضح کر ناہے جو اس واقعے کے بعد پورے ملک میں موضوع بحث ہیں سوال یہ ہے کہ مذہبی جذبات کے مجروح ہونے کی حد کیا ہے؟ کہاں تک ہے ؟ اس کی بنیاد کیا ہے اور حقائق سے اس کا تعلق کیا ہے؟ کیا ایک فرقے کے مذہبی جذبات کی پرواہ کرنے کے لیے دوسرے فرقے کے مذہبی جذبات کو نظر انداز کر دینا اخلاقی اور دستوری اعتبار سے مناسب ہے؟ فرقہ وارانہ ہم اہنگی کے قیام کے نام پر کیا ملک میں مقیم مختلف قوموں اور طبقات کے مابین کوئی تفریق کی جا سکتی ہے ؟دستور میں بیان کردہ بنیادی حقوق کو کیا اثر نو ترتیب دیا جائے گا ؟
واضح رہے کہ بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کے قیام کے بارے میں بھی مذہبی عقائد کی بحالی کی بات کی گئی تھی، گائے کے تحفظ کے نام پر متعدد قتل بھی عقیدے کے نام پر ہوئے، ملک میں لامتناہی فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ بھی گائے اور سور کے نام پر ہی جاری رہا ۔اب مختلف مذہبی تہواروں کے موقع پر ایک ہی فرقے کے مذہبی جذبات کے احترام کو ملحوظ رکھنے کی خاطر دیگر تمام مذاہب کے لوگوں کو اس دوران اپنے کاروبار حتی کہ اپنی امد و رفت پہ قدغن لگانے پڑتے ہیں ۔حد تو تب ہو گئی کہ سنبھل کے سابق پولیس سی ای او نے گزشتہ ہولی کے تہوار پر تمام غیر مسلمین کو حکم جاری کر دیا کہ جسے ہولی نہ کھیلنی ہو وہ اپنے گھر کے اندر بند رہے ،ہم ان کی حفاظت نہیں کر سکتے ۔ کیا اس صورتحال کا یہ سیدھا مطلب نہیں ہے کہ ملک تیزی سے ایک سیکولر جمہوریہ ہونے کے بجائے ہندو مذہبی جمہوریہ بن رہا ہے، جہاں دیگر تمام اقلیتی طبقات کے عقائد کے احترام کی گنجائش بتدریج ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں حکمران جماعت اور ان کی نظریاتی روح آر ایس ایس ملک میں امن و امان کے قیام کی جتنی بھی باتیں کریں اور ڈائیلاگ اور گفت و شنید کے جو بھی دعوےکریں عملا وہ بے حقیقت ہیں۔ اس میں سچ بس اتنا ہی ہے جو آر ایس ایس کے سربرا موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ ملک میں ہندو راشٹرکا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے عملا تو یہ ہندو راشٹر ہی ہے۔ کانپور پولیس کا حالیہ اقدام بھاگوت جی کے اس بیان کی عملی تعبیر ہیں۔

مسلمانوں کے بنیادی مذہبی عقائد میں سے ایک لازمی جز وعشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے جو قران حکم سے واضح طور پر ثابت ہے اور ملک کے دستور سمیت دنیا کی کوئی عدالت اس سے انکار نہیں کر سکتی کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی عقائد کا لازمی جز وہے۔ ایسے میں اگر ملک میں دستور کی عمل اوری ہے تو انتظامیہ کا کوئی بھی حصہ مسلمانوں کے اس دستوری حق کی خلاف ورزی کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ جب تک کہ موجودہ قانون کو کل عدم نہ قرار دے دیا جائے۔ جو کہ ابھی تک تونہیں ہوا ہے۔ اس عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ۔جیسا کہ نماز پڑھنے، روزہ رکھنے، حج لیے جانے پر کوئی پابندی دستوری طور پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ مگرمسلمانوں کو بھی ایک بات ذہن نشین رکھنی چاہیے ،ناموس رسالت کی پاسداری کا وعدہ محض ہمارے ملک کے دستور ہی نہیں کرتا بلکہ خود خدائے عزوجل نے بھی ناموس رسالت کا حتمی اور دائمی نظام قائم کر رکھا ہے قران حکیم واضح طور پر فرماتا ہے کہ فرشتے بھی ہر وقت بارگاہ رسالت ماب میں سلام پیش کرتے رہتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ جب بھی نام نامی سنا اور بولا جائے تو لازمی طور پر سلام بھی پیش کیا جائے چنانچہ فرشتے تو ابتدائے آفرینش سے ہی سلام پیش کرتے ہیں اور صبح قیامت تک کرتے رہیں گے، لیکن مسلمان بھی گزشتہ 1500 سال سے لگاتار سلام پیش کرتے آرہے ہیں اور تا قیامت اس سلسلے کو روکنے پر دنیا کی کوئی طاقت قادر نہیں ہے۔ اس دنیا میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جبکہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام و تحیت کی صدا نہ گونجتی ہو۔ انڈونیشیا میں فجر کی اذان سے سلام کا یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے اور جب تک آسٹریلیا پہنچتا ہے اس وقت تک انڈونیشیا میں ظہر کی اذان کا وقت شروع ہو جاتا ہے ، اس طرح دنیا میں کسی نہ کسی طرح ہر جگہ ،ہر وقت،ہر لمحہ یہ اذان گونجتی رہتی ہے جس میں اشہد لا الہ الا اللہ پکارا جاتا ہے اس کے بعد ہر نماز میں درود پڑھا جاتا ہے۔ علاوہ عظیم دنیا کے 200 کروڑ مسلمان انفرادی طور پر بھی کسی نہ کسی عنوان سے درود پڑھتے ہی رہتے ہیں زور سے نہ پڑھیں تو دل ہی دل میں پڑھتے رہتے ہیں یہ نظام تو اللہ نے خود ہی ایسا قائم کر دیا ہے کہ کسی خطے یا ملک کے مسلمان کسی وجہ سے درود کا سلسلہ ترک کرنے پر مجبور بھی کر دیے جائیں تو یہ سلسلہ ترک نہیں ہو سکتا اور ساری دنیا کے مسلمان بھی اگر ترک کر دیں تو فرشتے یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ لیکن مسلمانوں کو اس سوال پرخود بھی غورکرنا ہوگا کہ ناموس رسالت اور عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مطالبہ قرآن کرتا ہے اس کے اظہار کا طریقہ کیا ہوگا۔ آج ناموس رسالت کے تحفظ کے نام پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو اگر پکارا جائے تو غالبا کروڑوں مسلمان اس نام پر اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہو جائیں گے، لیکن انہیں کروڑوں مسلمانوں سے اگر یہ مطالبہ کیا جائےکہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حتی المقدورعمل کریں تو شاید یہ تعداد چند لاکھ بھی نہ ہو ۔عشق کے نام پر جان قربان کر دینا نسبتا آسان عمل ہو سکتا ہے مگر اسی نام پر اسوہ رسول کو اختیار کرنا اتنا اسان نہیں ہے، جبکہ عشق نبی صلعم کا اصل مطالبہ جو قران سے بھی ثابت ہے وہ تو اسوہ رسول کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا ہی ہے۔ گویا اظہار عشق عوامی اور زبانی نہیں بلکہ عملی ہونا ضروری ہے۔

ملک میں گزشتہ ایک دہائی سے ایک ایسا شر پسند طبقہ موجود ہے جو مستقل مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ یہ طبقہ یہ سمجھ چکا ہے کہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاسداری مسلمانوں کی دکھتی رگ ہے ، مسلمان کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں لیکن گستاخی رسول برداشت نہیں کر سکتے ۔اس لیے بار بار یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اس نام پر پوری امت کو مشتعل کر کے سڑکوں پہ لایا جائے اور پھر انہی کو مورد الزام ٹھہرا کر مختلف انداز میںسزایئں دی جائیں، پریشان کیا جائے یوں امت اور دین کی تذلیل کی جائے ۔حکمرانوں کویہ لگنے لگا ہے کہ اکثریتی طبقے کے عقائد کے احترام میں دیگر تمام مذہبی عقائد پر عمل آوری کی حوصلہ شکنی کرنا ہی انہیں اقتدار میں رکھنے کی چابی ہے۔کیونکہ دیگر عقائد پر پابندی لگانے کے لیے تو حکومت کو پارلیمانی قانون لانا پڑے گا، ویسے موجودہ حکومت کے لیے ایسا کرنا اب کوئی زیادہ مشکل کام بھی نہیں ہے خود حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی تھوڑا بہت سیاسی جست و خیز کر کے اس قسم کے قوانین کو بالآخر قبول کر ہی لیتی ہیں، اس قسم کے قوانین کے خلاف حزب اختلاف کی جانب سے بھی کوئی عوامی تحریک کبھی دیکھنے میں نہیں آتی ۔
مسلم دانشور اس چال کو خوب سمجھتے ہیں اس لیے جذباتی ہونے کی بجائے معروضی انداز میں سوچتے ہیں۔ ظاہر ہے ناموس رسالت اتنی عظیم اور پائدار ہے کہ یہ فضیلت دنیا کی تمام مخلوقات میں کسی اور کو حاصل نہیں ہے اور نہ کبھی ہو سکتی ہے۔ایسے میں یہ شر پسند عناصر اس عظمت اور اس معجزے کو سمجھ پائیں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ چنانچہ ان بغل بچوں کو خاطر میں لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، اس سلسلے میں سڑک پر چلنے والی ہر تحریک انہیں شر پسندوں کا مذموم عزائم کو کامیاب کرنے کے مترادف ہے۔ اس موقع پر ضروری یہ ہے اور وقت کا شدید تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے عمل کا محاسبہ کریں اور کوشش کریں کہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں جتنا ممکن ہو جاری کر لیں ۔ہمارا جو بھی دینی مسلک یا عقیدہ ہو بہرحال ہر مسلک ناموس رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت النبی پر متفق ہے۔ دوسرےمسلک پرتنقید کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے ہی مسلک و مشرب کے مطابق اپنی عملی زندگی میں قران و سنت کو نافذ کریں۔ ہم خود اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو نظر انداز کر رہے ہیں تو پھر دوسروں سے بھی شکوہ کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button