آئی او کا 40 سالہ سفر مکمل ہواایس
صدام پٹیل (جلگاؤں)
معاشرہ میں جس طبقہ کو سب سے زیادہ رہنمائی
اور موثر کردار پیش کرنے کی ضرورت ہے وہ ہمارا نوجوان طبقہ ہے۔ نوجوان معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ان ہی پر کسی بھی سماج کی ترقی اور خوشحالی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس لیے ہر سماج ان کی رہنمائی اور تربیت کی فکر کرتا ہے۔ ان کے مستقبل کو محفوظ اور مضبوط بناتا ہے۔ جو سماج اپنے نوجوانوں کی رہنمائی اور تربیت میں کمزور ہوتا ہے وہ تاریخ میں عبرت کا مقام بن جاتاہے۔ ہم ایسی بہت سی قوموں سے واقف ہے جو ایک زمانے میں حکمراں تھی لیکن ابھی یا تو اس دنیا سے غائب ہوگئی ہے یا غلام بن گئی ہے۔ یہ غلامی صرف جسمانی نہیں بلکہ فکری اور تہذیبی ہے۔ فکری غلامی سماج کو کبھی بیدار نہیں ہونے دیتی وہی یہ غلامی کا اثر جس طبقہ پر سب سے زیادہ ہوتا ہے وہ سماج کے نوجوان ہوتے ہیں۔
سماج میں جب نوجوان طبقہ اپنی فکری شناخت گنوا دے تو وہ سماج دوسرے افکار اور نظریات کا غلام بن جاتا ہے۔ اس لیے ہر سماج کو اپنے نوجوانوں کی رہنمائی اور تربیت کرنا بہت ضروری ہے۔ دور حاضر میں جس سماج کے نوجوان سب سے زیادہ رہنمائی اور تربیت سے محروم ہے وہ امت مسلمہ کے نوجوان ہے۔آج ہمارے نوجوان مغربی افکار میں گرفتارہی نہیں بلکہ اس کے داعی ہے۔ یہ کمزوری جہاں ہمیں اپنے مستقبل کی پیشنگوئی سناتی ہے تو وہی ہمیں اپنی کمزوریوں سے بھی واقف کراتی ہے۔اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی ہمارا سماج رہنمائی اور تربیت سے سب سے زیادہ غافل ہے اور اپنی ترجیحات میں اس کو شامل نہیں کرنا چاہتا ہے ۔ ہم سماجی کاموں میں تو کافی حد تک آگے ہیں لیکن اپنے نوجوانوں کی رہنمائی اور تربیت کے کام سے غافل ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس بے راہ روی کو روکنے کے لیے ہم اپنے شہروں اور محلوں میں نوجوانوں کے لیے Guidance Centre اور تربیت گاہ کا قیام کرتے۔ مختلف صلاحیتیں ان میں پروان چڑھاتے۔ ہر شہر میں نوجوانوں کی رہنمائی اور تربیت کے لیے کمیٹی اور فورم تشکیل دیتے۔ ان کے مستقبل کو تابناک اور مضبوط بنا تے۔ اور انھیں سماج کی تعمیر میں لگا تے۔
سماج میں ہم رہنمائی اور تربیت کے کام تو انجام دیتے نہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم ایسی کسی تنظیم اور تحریک کی حمایت بھی نہیں کرتے۔ان ہی تنظیموں میں SIO Of India (اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا) کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ SIO ہندوستان میں 39 سالوں سے طلبہ اور نوجوانوں کی رہنمائی اور تربیت کا کام انجام دے رہی ہے۔SIO نےاپنے حلقہ اثر سے لاکھوں نوجوانوں کو متاثر کیا ہے۔ 19 اکتوبر کو SIOکی اس جدوجہد کو 40 سال مکمل ہوجائے گے۔ SIO طلبہ اور نوجوانوں کے لیے ایک بہترین پلٹ فارم ہے جہاں طلبہ و نوجوان اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی صلاحیت اور صالحیت کو پروان چڑھا تے ہیں۔ SIO نے نوجوانوں کی فکر پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اورآج بھی الحمدللہ کر رہی ہے۔ سماج کے مسائل خصوصاً طلبہ اور نوجوان برادری کے مسائل کو حل کرنا اور ان کے مستقبل کو محفوظ کرنے میں SIO کافی حد تک کامیاب ہوئی ہے۔
موجودہ حالات میں جہاں ہندوستان فکری اور سیاسی کشمکش کا شکار ہے وہاں SIO کا نوجوانوں کی رہنمائی کرنا ایک بڑا فریضہ ہے۔ ایسی بہت سے خصوصیات ہے جس کا تذکرہ کرنا یہاں مقصود نہیں۔البتہ جو حیرت انگیز پہلو SIO کا برقرار ہے وہ اس کا نظم اورتربیت ہے جو اس کے وابستگان پر سب سے زیادہ حاوی ہے۔ SIO کا نظم اور تربیت وہ خصوصیات ہے جس کے لیے SIO دیگر تنظیموں اور تحریکوں سے ممتاز ہے۔پھر وہ چاہے اس کا انتخاب کا طریقہ کار اور یا ممبر سازی کا مرحلہ اس کا نظم ایک مثال ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کی تربیت کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن جس حسن خوبی کے ساتھ SIO تربیت کام انجام دے رہی ہے اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ ہم جانتے ہے کہ دور حاضر میں جس صلاحیت سے ہمارا معاشرہ سب سے زیادہ محروم ہے وہ رہنمائی کی خوبی ہے۔ ایسے موقع پر SIO کا نوجوانوں کی تربیت کرنا وہ بھی خالص اسلامی نہج پر ایک کارنامہ ہے۔
لیکن ہمارے سماج میں اب بھی ایسے عناصر ہے جو نوجوانوں کے لیے مغربی افکار تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن اسلامی فکر ان کو برداشت نہیں۔ وہ یہ خواہش تو کرتے ہیں کہ اسلام اپنی پوری شان و شوکت سے چمکے لیکن کسی اور کے تیل سے۔وہ یہ خواب تو دیکھتے اور دکھا تے ہیں کہ اللہ کا نظام ہر جگہ ہو لیکن کسی اور سے۔یہ دوغلہ رویہ ہمارے سماج کو دن بہ دن تباہ و برباد کرتا چلا جارہاہے۔
ایس آئی او ہم سب کو دعوت دیتی ہے کہ ہم اس کی جدوجہد کا ایک حصہ بنا۔ اپنے نوجوانوں اور طلبہ کو اس SIO کی آغوش میں دے اور ہر طرح سے اس اہم فریضہ میں مدد کریں۔