امید اکیڈمی”طرز تعلیمی ادارے سے قوم و ملت کو بڑی امیدیں وابسطہ ہیں
۔ نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر، اسٹار نیوز دہلی
۔ +966562677707
مغربی بنگال میں شباب قوم و ملت، حضرت مولانا ولی رحمانی مدظلہ کا شروع کیا ہوا ، نونہالان قوم و ملت کا، اسلامی اقدار تعلیم و تربیت کا نظام "امید اکیڈمی” کس اعلی مقاصد کے تحت، عالمی معیار تعلیمی تدریسی ادارہ بناگیا ہے دیکھا جاسکتا ہے۔اور اس امید اکیڈمی کے تعلیمی کریکیولم کو اپناتے ہوئے، دیش بھر میں رفاعی تعلیمی تربیتی مسلم ادارے وجود میں لائے، قروں اولی طرز تعلیم، عالمی سطح المحترمہ فاطمہ الفہری کے ترکہ ملی رقم،ذاتی صرفے سے، عالم کی اولین قائم کی ہوئی اسلامی یونیورسٹی جامعہ القریان فیز، موراکو اور الازھر یونیورسٹی کائرو مصر طرز مستقبل قریب میں ھندستان میں بھی، امید اکیڈیمی یقینا” ایک ایسی اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کرلیگی، جس میں بہ حکم قرآنی اور رسول خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺ کے عملا” کر دکھائے، اسوء حسنہ کے پیش نظر، قران و حدیٹ تعلیمات کی روشنی میں، علم عصر حاضر والے مسلم ادارے کثرت سے وجود میں لائے جاتے، مسلم قوم کو، تدبر و تفکر تحقیق کے میدان میں مصروف عمل کئے جاتے، قرون اولی کے طرز، مسلم امہ کو، نیابت انسانیت کے لئے تیار کیا جاسکے گا۔ الحمدللہ دیش کے انیک حصوں ریاستوں میں، خصوصا” کیرالہ جیسی چھوٹی مگر مسلم اکثریتی ریاست میں، ماضی قریب میں قائم مختلف اداروں میں قرآن و حدیث اقدار روشنی میں، نونہالان مسلم۔امہ ھند کو، عصری تعلیم دلواتی کوشش پس منظر میں، مستقبل قریب ہم مسلمانوں کے لئے یقینا” تابناک و سنہرا ہوگا اس کی امید ہے
https://www.facebook.com/share/v/1AVWoLTNJG/
’’(حضرت) انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:- علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسا علم، ہم مسلمانوں کے لئے، حاصل کرنا فرض ہے؟ کیا قرآن و حدیث والا علم دین یا سائینسی عصری علوم سیکھنا ہم مسلمانوں کے لئے فرض یے؟ اس سمت رسول اللہ ﷺ پر اتاری گئی قرآن کریم کی پہلی آیت کریمہ "اس پیدا کرنے والے، اللہ کے نام سے،پڑھنےکے حکم تحکمی” بعد، دوسری آیت "حضرت انسان کو،خون کے لوتھڑے سے پیدا کئے جانےوالاعلم”،علم سائینس سیکھنے کی ہدایت، خود قرآن مجید میں، اللہ رب العزت فرماتا ہے۔ ٹانیا” اللہ کے رسول خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺنے، اپنے نبوی زندگی کی پہلی حرب بدر جیت بعد،اسلامی سلطنت مدینہ منورہ، قیام کی شروعات ہی میں، اسیران سرداران قریش کو، انکے پاس موجود، علم حرب و علم ماحولیات الارض، مسلمانوں کوسکھاتےہوئے، مسلم افواج اسیری سے، آزادی کے پروانے کا جو حکم نافذ کیا تھا،کیا وہ حکم رسول ﷺ، ہم مسلمانوں کو، موجودہ حالات والا علم الحرب، علم سائینس،سیکھنےکی تلقین کرتا،کیا نہیں پایا جاتا ہے؟ پھر کیوں کر ہم مسلمانوں نے،حصول علم کی اس حدیث کا مطلب و مفہوم، صرف علوم دینیہ پر مرکوز کئے،ہم مسلمانوں کو، مساجد و مدارس کے در و دیوار گنبدوں میں مقید کررکھ دیا تھا۔ جس طرح نوزائیدہ پرواں چڑھتے، اپنےبچوں کو،انکے والدین کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے سمیت معاشرتی زندگی کے آداب،حرام و حلال کی تمیز سکھاتے پائے جاتے ہیں اور بچپن کا سیکھا، تدریب پایا علم و ہنر تا زندگی اولاد، بھول نہیں پاتی ہے اور والدین بھی بچوں کو،بڑا ہونے پر، جوانی میں یا ادھیڑ عمری میں، کھانے پینے کے اداب کا علم مکرر سکھاتے نہیں پائے جاتے ہیں،بالکل اسی طرح بچپن میں، بچوں میں ودیعت کئے گئے، علم دین کے بعد، انہیں اسی علم دین قرآن و حدیث کی روشنی میں، معاشرتی زندگی میں درکار علم سائینس اینوٹومی، فزکس، تاریخ، جغرافیہ، علم نباتات بایولوجی،علم حشرات الارض نیز وقت حاضر، عزت سے زندہ رہنے کے لئے درکار، علم حرب مدافعت سیکھنا سکھانا، امت مسلمہ کے لئے، نہ صرف قرآن کی ابتدائی آیات سے، اللہ رب العزت نے، امت مسلمہ کے لئے فرض عین قرار دیا ہے، بلکہ پہلی حرب بدر بعد، اللہ کے رسول ﷺ نےبھی، اسیران سرداران مکہ کی رہائی کے لئے، علم حرب و علم معاشرت مسلمانوں میں منتقل کئے، آزادی کا پروانہ پانےکی نوید سناتے ہوئے، آپ ﷺ نے، علم حرب فزکس والا سائنس سیکھنا سکھانا، ہم مسلمانوں کے لئے فرض عین بتا دیا تھا۔ کیا اب بھی ہم مسلمان، عصری علوم سے منھ موڑے، حکم خدا و رسول ﷺ پر عمل پیرا پائے جاتے رہیں گے؟ 8 جون 632 عیسوی سال آپ ﷺ کے وصال بعد 235 سال کے اندر، مدینہ منورہ سے 5,831 کلو میٹر دور شمالی آفریقہ کے اسلامی ملک مورکو میں، 857 عیسوی، دنیا انسانیت کی پہلی تعلیمی یونیورسٹی قائم کی گئی تھی۔ اس وقت کے مسلمانوں کے پاس، علم دین یا علم دنیا کا کوئی جداگانہ تخیل ہی نہیں تھا، بالکہ حکم وحی خدا، علوم قرآن و حدیث کی روشنی میں، اسرار و رموز ارض سماوات، بر و بحر، غابات و ریگستان، ارض و سماوات، چاند و سورج و جمیع کواکب و نجوم اور اس پر بسنے والے چرند پرند درند نیز قسم ہا قسم کے حشرات الارض اور انسانیت کے لئے انکی افادیت تلاشنے کا علم ہی، بحیثیت علم سکھایا پڑھایا جاتا تھا۔اسی لئے آپ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے 339 سال بعد، 971 عیسوی سال، عالم اسلام کی دوسری آلازھراسلامک یونیورسٹی بھی شمال افریقی عرب ملک قاہرہ مصر میں قائم کی گئی تھی۔آور آپ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے 456 سال بعد 1088 سن عیسوی میں دنیامسیحیت کی پہلی تعلیمی یونیورسٹی، شمال اٹلی کے ایمیلیا رومانگنا شہر میں، بولوگنا یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔گویا دنیا انسانیت کو عصری تعلیم کا تعارف دین اسلام نے دیا تھا اور جب تک اسلامی خلافت کی سرپرستی میں، اسلامی یونیورسٹیوں میں قرآن و حدیث کی روشنی میں، اسرار رموزارض وسماوات پر، تدبر تفکر اور تحقیق کا علم جارہی رہا، تب تک عالم انسانیت پر،مسلمانوں کی حکمرانی قائم رہی۔اور جب جب بھی زمام حکومت خلافت پر، غلو والی دینداری حاوی ہونا شروع ہوئی، تب تب عالم پر مسلم حکمرانی کمزور پڑنے لگی۔اور نتیجہ جگ ظاہر ہے، پیشین گوئی رسول خداﷺ کے مطابق، سمندر کی جھاگ برابر مسلم، کثرت تعداد باوجود ہم 2 ہزار ملین مسلمان،دو سوا دو فیصد کم و بیش نو ملین یہودیوں کے اشاروں پر،جی حضوری کرنے والے، بے وقعت مسلمان، ہم ہوکر رہ گئے ہیں۔ اسلامی تاریخ شاھد یے سکوت غرناطہ اسپین بعد، ایک تہائی عالم انسانیت پر حکومت کرنے کامیاب، عالم مسیحیت برطانوی شہنشاہیت نے، اپنے سازشازشانہ مکر و فن سے،اپنی مسیحی خفیہ تعلیم گاہوں میں، تعلیم و تربیت دئیے نام نہاد علماء کرام کو، اپنے زیر اثر علاقوں کے مسلمانوں میں، گھلائے ملائے، دین اسلام تعلیمات قرآن و حدیث فہمی میں، غلو، محبت دین سے کام لیتے ہوئے، اس وقت کے تخیل علم کو دو حصوں میں بانتے ہوئے، مسلمانوں کے لئے، بعد الموت اپنی آخرت سنوارنے، صرف حصول علوم قرآن و حدیث ہی کوفوقیت دیتے ہوئے، علوم عصر حاضر کو ہم مسلمانوں کے لئے شجر ممنوعہ، یہاں تک کے حرام کی حد تک لاکھڑا کرتے ہوئے، مسلم امہ عالم کو، عصری علوم سے بےگانہ کرنے کی اپنی سازش میں، ایک حد تک کامیاب کردیا تھا۔ اسی کا نتیجہ آج ایکیسویں صدی کے، عالم اسلام کے جلیل القدر عالم دین کو، اپنی وراثت حسینیت کے زعم میں، مسلم اکثریتی علاقے والے ہزاروں کے قوم مسلم مجمع میں، اپنی لن ترانی گفتاری میں، کالج و یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے، ابناء و بنات مسلم امہ کو،ابن الحرام و بنت الحرام قرار دیا تھا۔یہ صرف لن ترانی میں غیر سہوا” کہی ہوئی بات نہ تھی بالکہ یہ وہی، قرآن و حدیث تعلیمات کے خلاف فرنگی انگریزوں کے، ان میں ودیعت کئےہوئے،غلوء دین تفکر تھا، جو صرف دینی علوم کے سیکھنے سکھانے کو، امت مسلمہ کے لئے،فرض عین ٹہراتا تھا۔ الحمد اللہ سنگھی سازشی 6 دسمبر 1992 پانچ سو پچاس سالہ بابری مسجد شہادت اور اس دہشت گردانہ واقعہ بعد، بابری مسجد آراضی کو، عدلیہ پرسنگھی دباؤ برقرار رکھے،اس زمین کو قاتل بابری مسجد ٹولے ہی کے سپرد کئے جاتے، ایک مرتبہ وقف کردہ اراضی، مسجد تعمیر تا قیامت مسجد رہنے والے مسلم موقف باوجود،بابری مسجد زمین پر، بزورقوت ھندوؤں کا بھویہ رام مندر تعمیر کئے جانے کے بعد، بنارس و متھرا، سمبھل کی مساجد کے ساتھ جامعہ مسجد دہلی،اجمیر درگاہ سمیت انیک مسلم عبادگاہوں پر، انکی بنیادوں میں مندر ہونے کا سوشہ چھوڑے، مسلم مخالف منافرت جس انداز پھیلائی جارہی ہے اس پس منظر میں مسلم امہ ھند میں، اپنے قومی نوجوانوں کو اعلی عصری تعلیم دلوانے کا رجحان جو پایا جانے لگا ہے اور خصوصا” مولانا ولی رحمانی جونیر جیسے علماء کرام کے دینی پس منظر میں عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی فکر نے، قروں اولی کے طرز مسلم امہ میں عصری تعلیم حصول کی اہمیت جاگزین کی ہے امید ہوچلی ہے کہ مستقبل قریب کی قرآن وحدیث اقدار کے ساتھ، اعلی عصری تعلیم حاصل کردہ نئی نسل، معاشرے میں پوری طرح آجانے کے بعد، یقینا”مسلم امہ ھند کا مستقبل تابناک و روشن ہوگا
"سب کا ساتھ سب کا وکاس” اور "اچھے دن آنے والے ہیں” جیسے دلبھاونے مکر وفن سے لبریز نعروں کے ساتھ، عالم کے سب سے بڑے سیکولر جمہوری ملک چمنستان ہندستان پر، اپنے سنگھی حکومتی تسلط کے بعد، سرزمین بھارت، بین المذہب علی الاعلان دعوت دین اسلام کا پرچم بلند کرنے والے بین المذہبی علوم ماہر، ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف، ہم مسلمانوں کے بہت بڑے طبقہ، اہل بریلوئیت کے تمام تر ہمنوائی کے ساتھ، ڈاکٹر ذاکر نائیک کو،ملک دشمن قرار دئیے،اسے ملیشیا میں سیاسی پناہ لینے مجبور کرنے والے، سنگھی اسلام دشمن لیڈر مودی جی کو، اکثریتی ھندو قوم کے مہا شکتی سالی مسلم دشمن لیڈر کے طور،اپنےآپ کو پیش کرتے ہوئے، اسے اسکی بھارت کی معشیت کو تباہ کرتی معشیتی پالیسیوں کے باوجود، مسلم دشمن ھندو اکثریتی لیڈر کے طور، اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرنے، گویا اصل میں، ہم مسلمان ہی اسکے لاتسخیر طاقتور بننے کے ذمہ دار ہیں۔یہ ہم مسلمانوں کی آپسی تفکراتی دشمنی ہی ہماری نادانی باعث، دشمن کو ہنارے خلاف قوی تر کرنے کا موجب بنا کرتی ہے۔ اس کے خمیازہ میں، مہان مودی جی نے، نہ صرف سلفی الذہن ذاکر نائک کی دعوتی سرگرمیوں سے اسلام دھرم قبول کرتے سناتن دھرمی ھندوؤں کو مسلمان ہونے سے بچانے کامیابی حاصل کی بلکہ ذاکر نائیک پر گرائی سنگھی گاز سے، مسلم امہ کے خاموش رہنے ہی کی وجہ سے، سنگھی مودی جی کی ہمت بڑھتے، داعی اسلام کلیم صدیقی مدظلہ, سلمان ازھری مدظلہ جیسے جید علماء کرام کو، حراست میں لئے ہم مسلمانوں کو بدنام و رسوا کرنے کی ہمت و ساہس سنگھی مودی یوگی حکومت نے پائی ہے۔ اب تو ہم مسلم امہ ھند کو اپنے تفکراتی اختلافات کے پیش نظر، ایک دوسرے کو زیر کرنے، دشمن اسلام قوتوں کی مدد لینے سے گرئز کرنا ضروری ہوجاتا ہے اللہ کے ہم جمیع مسلمانوں اپنے تفکراتی اختلافات باوجود، ایک کلمہ ایک نبی کے امتی ہونے کو ملحوظ رکھتے ہوئے، وحدت امہ کے اپنے نصب العین سے کبھی روگردانی نہیں کرنی چاہئےاور فی زمانہ ہزار حیلے بہانوں سے انتخابی مہمات ہمارے بکھرے ووٹوں سے تقویت پائے، سنگھی حکومتی اوقاف ترمیمی بل سے، ہم مسلمانوں کے ہزاروں لاکھوں کروڑ اباء وآجداد کی وقف ملکیت کو سنگھی درندوں سے آمان میں رکھنے، ہمیں اپنی اخوت وحدت امہ کو جگ ظاہر کرنا ہوگا اور ہزار کمیوں خامیوں باوجود ہمیں اپنے مسلم پرسنل لاء بورڈ قیادت کے پیچھے شیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہونا پڑیگا۔وما التوفیق الا باللہ