
مضامین و مقالات
دہلی میں کیوں ہاری عام آدمی پارٹی؟
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
دہلی کے اقتدار پر قابض عام آدمی پارٹی کو ہار کا منھ دیکھنا پڑا ۔ کرپشن مخالف انا آندولن سے نکلی عام آدمی پارٹی نے پہلی مرتبہ کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی ۔ جو صرف 49 دن چلی، اس کے بعد ہوئے انتخابات میں وہ 67 پھر 62 سیٹیں حاصل کر اقتدار میں آئی ۔ ستر سیٹوں والی اسمبلی میں اس مرتبہ عام آدمی پارٹی 22 سیٹوں پر سمٹ گئی ۔ یہاں تک کہ اروند کجریوال، منیش شسودیا، سوربھ بھاردواج، ستیندر جین اور سومناتھ بھارتی جیسے لوگ بھی چناؤ ہار گئے ۔ ستائس سال سے انتظار کر رہی بی جے پی نے 48 سیٹیں جیت کر دہلی میں حکومت بنالی ۔ جبکہ اروند کجریوال کو اپنی جیت کو لے کر پر اعتماد تھے ۔ انہوں نے مودی شاہ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس جنم میں وہ انہیں نہیں ہرا سکتے ۔ کجریوال کو ہرانے کے لئے ایک اور جنم لینا پڑے گا ۔ سوال یہ ہے کہ ہار کے اسباب کیا رہے اور کامیابی پر اتنا بھروسہ کیوں تھا؟
انتخابی سیاست میں پارٹیوں کی ہار جیت عام بات ہے ۔ کیونکہ عوام فطری طور پر تبدیلی کو پسند کرتے ہیں ۔ لیکن کجریوال کی شکست نہ دی جانے والی تصویر نے سوالات کھڑے کئے ہیں ۔ جگی جھونپڑی میں رہنے والے غریب، مزدور، دلت، لوئر مڈل کلاس اور مسلمان عام آدمی پارٹی کور ووٹر تھے ۔ خواتین، اینٹی کرپشن نئی طرح کی ایماندار سیاست کے نعرہ، کجریوال کی سادگی، معمولی چپل پہننے اور پرانی ویگن آر سے چلنے سے متاثر نوجوان و دانشوروں نے بھی کھل کر اس کا ساتھ دیا ۔ ان کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کو غیر معمولی کامیابی ملی ۔ کجریوال کے اقتدار میں آنے کے بعد دھیرے دھیرے یہ بھرم ٹوٹنے لگا ۔ دہلی فساد، جہانگیر پوری کے واقع اور بلڈوزر ایکشن پر ان کی سردمہری، تنبلیغی جماعت پر کورونا پھیلانے کا الزام، گاڑی، بنگلہ سرکاری سہولیات نہ لینے کا بار بار اعلان کرنے کے باوجود مہنگی گاڑیوں میں چلنے، اپنی سرکاری رہائش پر سو کروڑ خرچ کر شیش محل بنانے، شراب گھوٹالے، اشتہارات پر بے تحاشہ پیسے خرچ کرنا لیکن دہلی کی ٹوٹی سڑکوں اور ترقی کو نظر انداز کرنے نے ان کی ایمانداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ۔ پارٹی میں دلت اور او بی سی کو جگہ نہ دے کر ان کو بھی اپنے سے دور کر دیا ۔ عام آدمی پارٹی میں راجندر پال گوتم اکلوتے دلت وزیر تھے ان سے بھی استعفیٰ لے لیا گیا تھا ۔ پارٹی نے جنہیں راجیہ سبھا بھیجا ان میں ایک بھی دلت، او بی سی یا مسلمان شامل نہیں ہے ۔
کجریوال نے سیکولر کے بجائے ہندوتوا کا راستہ اپنایا ۔ کبھی مندروں کے درشن، کبھی پوجا کی تقریب، ہندو بزرگوں کو تیرتھ یاترا کا پیکج، پجاری اور گرنتھیوں کے لئے تنخواہ کا اعلان لیکن اماموں کی رکی ہوئی تنخواہ جاری نہ کرنا جبکہ اماموں کو تنخواہ وقف بورڈ سے دی جاتی ہے ۔ اس میں حکومت کا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا ۔ عام آدمی ہونے کا دعویٰ لیکن عوام سے دوری، تکبر اتنا کہ عوام تو دور اپنے ممبران اسمبلی تک کو ملنے کا وقت نہ دینا ۔ پھر ہر وقت مرکزی حکومت سے جھگڑے کا عوام میں منفی پیغام گیا ۔ لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ شیلا دیکشت نے مرکز کی اٹل جی سربراہی والی حکومت کے ساتھ کام کیا ۔ لیکن کبھی کوئی ٹکراؤ کی خبر نہیں آئی ۔ دہلی میں سارا ڈولپمنٹ کا کام انہیں کے زمانہ میں ہوا ۔ کجریوال نے دس سال مرکزی حکومت سے لڑنے میں برباد کر دیئے ۔ جو کام شیلا دیکشت سرکار نے منظور کئے تھے وہ بھی پورے نہیں ہو سکے ۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ انڈیا اتحاد کا حصہ رہتے ہوئے اسی کو نقصان پہنچانے کا کام کیا ۔ دہلی میں لوک سبھا الیکشن عآپ نے کانگریس کے ساتھ مل کر لڑا تھا لیکن اسمبلی انتخاب میں اتحاد نہیں کیا ۔ کانگریس نے آخری وقت تک انتظار کیا اس کی وجہ سے ٹکٹوں کی تقسیم میں تاخیر ہوئی ۔ کانگریس نے سیلم پور سے اپنی انتخابی تشہیر کا زور دار آغاز کیا تھا ۔ اس سے لگا تھا کہ کانگریس سنجیدگی سے الیکشن لڑے گی ۔ اس کا لازمی نتیجہ عام آدمی پارٹی کی شکست تھا ۔ کانگریس نے اسے محسوس کرتے ہوئے اپنا قدم پیچھے کیا ۔ اس سے لگ رہا تھا کہ عآپ اور کانگریس کے درمیان فرینڈلی میچ ہوگا ۔ لیکن عآپ نے بد عنوانوں کا پوسٹر جاری کیا جس میں تیسرے نمبر پر راہل گاندھی کا فوٹو تھا ۔ اس کے بعد کانگریس کو میدان میں اترنا پڑا ۔ نتیجہ میں 18 سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ ایک سیٹ اسد الدین اویسی کی وجہ سے عام آدمی پارٹی ہار گئی ۔
دہلی میں کجریوال نے مفت کی اسکیموں کا کامیاب تجربہ کیا تھا ۔ اس کا دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی فائدہ اٹھایا لیکن سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوا ۔ عام آدمی پارٹی کو شاید انہیں مفت کی ریوڑیوں پر بھروسہ تھا ۔ اس نے دہلی کی خواتین کو بسوں میں مفت سفر، دو سو یونٹ مفت بجلی، پانی فری اور وکیلوں کوپانچ لاکھ کا ہیلتھ انشورینس دیا تھا ۔ اس مرتبہ خواتین کو 2100 روپے ماہانہ دینے کے رجسٹریشن کرایا گیا تھا ۔ اس کی وجہ سے کجریوال زیادہ ہی پر اعتماد تھے ۔ عورتوں اور ناراضگی کے باوجود مسلمانوں نے بڑی تعداد میں کجریوال کو ووٹ کیا ۔ اس کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کو بھلے ہی 22 سیٹیں ملی ہوں لیکن 43.57 فیصد ووٹ لینے میں وہ کاماب ہوئی ۔ بی جے پی کے ووٹ 2020 کے مقابلہ 7 فیصد بڑھ کر 45.56 ہو گئے ۔ اس کی سیٹیں آٹھ سے بڑھ کر 48 ہو گئیں ۔ بی جے پی نے کجریوال کی اسکیموں کو جاری رکھنے کے ساتھ خواتین کو 2500 روپے دینے کا اعلان کیا ۔ عام آدمی پارٹی کے کور ووٹ کے درمیان آر ایس ایس پچھلے ایک سال سے کام کر رہی تھی امت شاہ نے اپنی انتخابی تشہیر انہیں طبقات کے درمان سے شروع کی تھی لیکن کجریوال اس طرف توجہ نہیں دے سکے ۔
عام آدمی پارٹی کی ہار کے بعد اس کے مستقبل کے بارے میں سوال اٹھ رہے ہیں ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پارٹی ٹوٹ سکتی ہے ۔ پنجاب پر اس کے اثرات مرتب ہونے کے امکانات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے ۔ مگر اسے ملے ووٹ کجریوال کو اپنی پالیسی پر از سر نو غور وخوص کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ پارٹی کے اساسی ممبران سے کنارہ کرنے کی وجہ سے زمینی سطح پر کام کرنے والے اس کے کیڈر میں کمی آئی ہے ۔ ان فاونڈر ممبران نے ہی بے غرض کام کرکے پارٹی کو زمین پر اتارا تھا ۔ اس کی رسائی دوسری ریاستوں تک کرائی تھی ۔ پارٹی صرف سیاسی افراد کے دم پر نہیں چلتی اسے رضاکارانہ کام کرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس مرتبہ دہلی اسمبلی میں ایک مضبوط اپوزیشن رہے گی ۔ جو کاموں کا محاسبہ بھی کرے گی اور حکومت کی رہنمائی بھی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کجریوال پارٹی کو آگےبکس طرح لے کر چلتے ہیں ۔ پارٹی کے مستقبل کا فیصلہ کجریوال اور ان کی ٹیم کے اگلے اقدامات پر ہو گا ۔