
مضامین و مقالات
تاتاریوں کے سردار اعظم ہلاکو خان کے ہاتھوں خلافت عباسیہ کا خاتمہ!
ریاض فردوسی۔9968012976
خلیفہ ناصر (1225ء-1180ء) کے بعد اس کا بیٹا ظاہر بامراللہ بغداد کا خلیفہ ہوا لیکن وہ ایک سال سے کم مدت تک ہی حکومت کر پایا تھا کہ سنہ 1226ء میں ہی اس کا انتقال ہو گیا۔ظاہر بامراللہ کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا المستنصر باللہ خلافت کے منصب پر فائز ہوا اور وہ سنہ1242ء تک حکومت کرنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔عباسی خلفاء میں المستنصر باللہ اس بات کے لیے مشہور ہے کہ اس نے بغداد میں مستنصریہ مدرسہ قائم کی جہاں اسلامی علم کے علاوہ دیگر علوم جیسے طب،ریاضیات،ادب، نحوMedicine, Recipes, Literature), Manners)
کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔اس مدرسہ کے اندر ایک کتب خانہ بھی تھا،جہاں ایک سو ساٹھ اونٹوں کے پیٹھ پر نایاب کتابوں کو رکھ کر یہاں لایا گیا تھا۔بہت سے گاؤں اس مدرسہ کے لیے وقف تھے۔ المستنصر باللہ کے عہد خلافت میں ہی منگولوں یعنی تاتاریوں کا حملہ شروع ہو گیا تھا۔یہ قوم مشرق میں منگولیا سےاٹھی اور مغرب کی جانب کے علاقوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔
سنہ 1243ء میں منگول سلاجقہ روم (Sultanat of Rome) پر حملہ آور ہوا اور سلجوقی سلطان غیاس الدین کخیسرو (ء1246-1237ء) کی فوج کو شکست دی۔منگولوں نے سلجوقی فوج کو مشرقی اناتولیہ میں Mount Kosedag کے قریب شکست دی۔اس شکست کے بعد سلجوق سلطان منگولوں کے زیردست رہنا اور سالانہ خراج دینا قبول کیا۔اس جنگ سے پہلے قبیلہ تاتار کا سردار چنگیز خان کی قیادت میں منگولوں نے سنہ 24 نومبر 1221ء میں دریائے سندھ کے پاس Battle of Indus میں خوارزم شاہی سلطنت کا سلطان شاہ جلا الدین کی فوج کو بھی شکست دی اور خراسان اور خوارزم پر قابض ہو گیا۔اس طرح منگول مغرب کی جانب بڑھتے ہوئے عباسی خلافت کے لیے خطرہ پیدا کر رہے تھے۔ سنہ 1242ء میں خلیفہ المستنصر باللہ وفات پاگیا اور اس کے بعد اس کا بیٹا المستعصم باللہ خلیفہ ہوا۔یہ سینتیسواں اور آخری عباسی خلیفہ تھا،جس نے سنہ 1258ء تک حکومت کی۔
اسلامی تاریخ میں سال 1258ء ایک اہم سال ہے۔ اسی سال میں بغداد سے تاتاریوں کے ہاتھوں عباسی خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔
خلیفہ المستعصم باللہ نے اپنے دور خلافت میں موید الدین علقمی نامی شخص کو اپنا وزیر اور مشیر مقرر کیا۔ علقمی ایک شیعہ مسلمان تھا۔ اس نے عہدہ وزارت پر فایز ہوتے ہی خلیفہ کو کٹھ پتلی کی طرح اپنے ہاتھ میں لے لیا؛ اور اس کو عضو معطل بنا کر سیاہ و سفید کا مالک و مختار بن گیا۔ علقمی نے شیعوں کو آگے بڑھانا اور ہر قسم کی رعایتوں سے مستفید کرنا شروع کر دیا۔ دیلمیوں کے زمانے میں جو بدعات جاری تھیں ان کو پھر زندہ کیا۔ اس کے زمانے میں دوبارہ شیعہ سنی فساد برپا ہونے لگے جو دیلمیوں کے عہد اقتدار میں برپا ریتے تھے۔ علقمی کی یہ خواہش تھی کہ کسی طرح سے بغداد سے عباسی خلافت ختم ہو جائے اور اس کے مقام پر شیعہ خلافت قائم ہو جائے۔خلیفہ کو علقمی کی اس خطرناک ارادہ اور غدارنہ کوششوں اور منصوبوں سے اگاہ کیا لیکن اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ خلیفہ اس قدر احمق اور پست ہمت تھا کہ اس نے ان لوگوں کی تمام باتوں کو خود علقمی سے بیان کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خیرخواہوں کی زبانیں نصیحت گری سے بالکل بند ہو گیی۔علقمی نے خلیفہ کو شراب نویشی اور دیگر لہو و لعب کی عادت بھی لگا دی۔ علقمی نے چنگیز خان کے ہوتا ہلاکو خان جو اس وقت خراسان وغیرہ ممالک کا بادشاہ تھا خط و کتابت شروع کی۔اس نے تاتاریوں کے سردار اعظم کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اگر بغداد پر حملہ کرے تو باآسانی اور بغیر قتل و غارت کے بغداد پر قابض ہو سکتا ہے۔علقمی نے خلیفہ سے یہ کہہ کر کے خراج کی تحصیل میں کمی آگئی ہے اور دوسری بات یہ کہ سپاہیوں کی تنخواہ بھی زیادہ ہے اس نے فوجی قوت میں تخفیف کر دی۔اتنا ہی نہیں اس نے خلیفہ کی فوج کی ایک بڑی ٹکری کو شہر بغداد سے باہر دوسرے شہروں اور ولایتوں میں منتشر کر دیا اور خلیفہ سے کہہ دیا کہ ان کو تاتاریوں کی روک تھام کے لیے سرحد پر روانہ کیا گیا ہے،علقمی نے شیعوں کو آمادہ کرکے ان سے ہلاکو کے پاس خطوط بھیجوایے۔
ان میں لکھا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے بطور پیشگوئی ہم کو خبر دی تھی کہ فلاں سنہ میں فلاں تاتاری سردار بغداد اور عراق پر قبضہ کر لے گا۔ان کی پیشگوئی کے موافق آپ ہی وہ فاتح سردار ہیں اور ہم کو یقین ہے کہ آپ کا قبضہ اس ملک پر ہونے والا ہے۔لہذا ہم قبل از وقت اپنی فرمانبرداری کا اقرار کرتے ہیں اور آپ سے اپنے لیے امن طلب کرتے ہیں۔یہ سارے اقدام القمی نے اس نیت سے کی تاکہ جب ہلاکو خان بغداد پر حملہ آور ہو تو وہ آسانی سے جنگ جیت جائے۔آپ حیران ہوں گے اس وقت اسلامی دنیا کا مشہور سائنسداں،فلسفی،ریاضی داں،ماہر فلکیات نصیرالدین طوسی نے عباسی خلیفہ کے خلاف تاتاریوں کا ساتھ دیا۔ہلاکو خان نصیرالدین طوسی کا بہت ہی احترام کرتا تھا۔اس کو ہلاکو خاں کے دربار میں بڑا رسوخ حاصل تھا۔ علقمی کی طرح وہ بھی ایک اسماعیلی شیعہ تھا۔علقمی نے نصیرالدین کو خط لکھا کہ جس طرح ممکن ہو ہلاکو خان کو بغداد پر حملہ کرنے کی ترغیب دو۔اس وقت عباسیوں کی تباہی کے لیے بہترین موقع حاصل ہے۔ساتھ ہی ہلاکو خان کے نام عریضہ روانہ کیا اور لکھا کہ میں نے بغداد کو فوجوں سے خالی کر دیا ہےاور سامان حرب سب باہر بھیج دیا ہے۔اس طرح ہلاکو خان کو بغداد پر حملہ کرنے کی ترغیب دی گئی،اس وقت ہلاکو خان کی فوج ایران میں بحر کیسپین سے متصل قلعہ الموت پر قبضہ حاصل کر چکا تھا اور قرامطہ یعنی اسماعیلیوں کا آخری بادشاہ نصیرالدین عبدالرحیم گرفتار ہو چکا تھا۔ہلاکو خان کے حملے کے وقت نصیرالدین طوسی الموت قلعہ میں پناہ لیے ہویے تھا لیکن بعد میں وہ ہلاکو خان کی فوج میں شامل ہو گیا۔ یہ واقعہ سنہ 1256ء کا ہے۔جب ہلاکو خان کو اطمینان ہو گیا کہ بغداد پر فتح کرنا آسان ہے تو اس نے نومبر1257ءکو اپنی فوج کو لیکر بغداد کی طرف کوچ کیا اور ماہ جنوری میں جب وہ شہر بغداد کے قریب پہنچا تو اس نے خلیفہ کو اقتدار سے دستبردار ہونے کو کہا لیکن خلیفہ نے اس سے صاف انکار کر دیا۔علقمی کی غداری کی وجہ سے خلیفہ کی فوج میں پھوٹ پر گیی۔علقمی کا نام غداران حکومت عباسی کے طور پر سقوط بغداد کے وقت سے لیا جاتا ہے،وہ کٹر شیعہ تھا اور بغداد کی حکومت کو ختم کرنے میں اس کا کردار اہم رہاہے۔
ادھر تاتاریوں نے دریا دجلہ کے دونوں کناروں پر اپنی پوزیشن سنبھال لی تھی پھر تاتاریوں نے یکایک باندھ توڑ ڈالا جس سے پانی عباسی سپاہیوں کے پاوں تلے سے بہنا شروع ہو گیا۔پانی کے اس سیلاب سے بہت سارے عوام اور فوجی ڈوب کر ہلاک ہو گیے اور جو لوگ بچ گئے اسے تاتاریوں نے قتل کر دیا۔
سنہ 29 جنوری 1258ء کو منگولوں نے شہر بغداد کا محاصرہ کیا۔خلیفہ کوشش کی کہ کوئی صلح ہو جایے لیکن ہلاکو خان اس بات کے لیے تیار نہیں ہوا۔ پھر 10 فروری 1258ء کو حکومت بغداد نے ہتھیار ڈال دیے۔ہتھیار ڈال دینے کے باوجود منگول شہر میں داخل ہویے اور ایک ہفتہ تک قتل و غارت جاری رکھا۔منگولوں نے خوب لوٹ مار مچائی اور مساجد، محلات،اسپتال اور لایبریری کو تباہ و برباد کر ڈالا۔بغداد کا سب سے بڑا کتب خانہ بیت الحکمہ کو بھی برباد کر دیا گیا۔اس کتب خانہ میں بےشمار نایاب کتابیں بشمول تاریخی دستاویز،مختلف مضامین سے متعلق کتابیں جیسے علم فلکیات کی کتابیں،طب، ادب، فلسفہ،ریاضیات اور دیگر کتابیں موجود تھیں۔ یہ سب کے سب برباد کر دیے گئے۔اہل بغداد بشمول سائنسداں اور فلاسفر شہر چھوڑکر بھاگنے کی کوشش کی تو ان سبھوں کو پکڑ کر قتل کر دیا گیا۔منگولوں نے کسی کی بھی جان نہیں بخشی یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں کو بھی بے رحمی اور بےدردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔دریا دجلہ مقتولین کی خون سے لال ہو گیا۔ہلاکو خان کی فوج کے ہاتھ سے بغداد اور مضافات بغداد میں تقریباً ایک کروڑ چھ لاکھ مسلمان قتل ہویے۔تاتاریوں نے خلیفہ المستعصم باللہ کو گرفتار کیا اور اس کے دولت خانہ پر اپنا قبضہ جما لیا۔خلیفہ کو جب بھوک اور پیاس کی شدت محسوس ہویی تو ہلاکو خان نے ایک طشت میں قیمتی ہیرے جواہرات رکھ کر اسے خلیفہ کے سامنے پیش کیا اور کہا اسے کھاؤ۔
جواب میں خلیفہ نے کہا اسے میں کیسے کھا سکتا ہوں؟
ہلاکو خان نے کہا جس دولت کو تم کھا نہیں سکتے اس دولت کو اپنی جان اور اپنی عوام کی جان بچانے کے لیے اپنے سپاہیوں کے پیچھے خرچ کیوں نہیں کیا تاکہ وہ تمہاری سلطنت کے تحفظ کے لیے منگولوں سے لڑتے؟
اس کے بعد ہلاکو خان نے بہت بری طرح سے خلیفہ کو مار ڈالا۔اسے ایک قالین میں لپیٹ دیا گیا اور پھر اس پر گھوڑے دوڑا دیے گئے۔منگولوں نے ایسا اس لیے کیا کہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر زمین کسی شاہی خون سے نہیں بھینگتی ہے تو زمین ناراض ہو جاتی ہے۔اس طرح بغداد سے عباسی خلافت کا خاتمہ ہوا۔علقمی کی جو خواہش تھی کہ ہلاکو خان کسی علوی کو بغداد کے تخت پر خلیفہ بنایے گا اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہویی بلکہ عراق پر ہلاکو خان نے اپنا ایک عامل مقرر کر دیا۔اس طرح سات سو برس تک حکومت کرنے کے بعد تاتاریوں کے سردار اعظم ہلاکو خان کے ہاتھوں عربوں کا اقتدار بغداد سے ختم ہو گیا۔
خلافت عباسیہ کے خاتمہ کے موقع پر یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ علویوں نے عباسیوں کے ساتھ مل کر بنو امیہ کو برباد کیا تھا۔ذی الحجہ سنہ 131 ہجری میں مکہ میں بنو امیہ کی حکومت کے آخری ایام میں ایک مجلس منعقد ہویی تھی۔اس میں خلیفہ کے تعین اور انتخاب پر چرچا ہویی تھی۔سفاح کا بھائی منصور بھی اس مجلس میں موجود تھا۔یہ اتفاق رائے سے طے ہوا تھا کہ محمد بن عبداللہ بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی بنی حکومت کا خلیفہ ہوگا۔حاضرین مجلس میں سے تمام لوگوں نے محمد بن عبداللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔منصور بھی محمد بن عبداللہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کر چکا تھا،لیکن جب سفاح کو کوفہ میں خلیفہ بنایا گیا تو عبداللہ بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی اور دوسرے علوی لوگ کوفہ میں آیے اور کہا کیا بات ہے، خلافت جو ہمارا حق تھا اس پر تم نے قبضہ کیا۔علویوں کو ہمیشہ اس بات کا افسوس رہا ہے کہ عباسیوں نے علویوں کو خلافت کے حق سی محروم کر دیا۔اس لیے جب بھی علویوں کو موقع ملا وہ عباسیوں کے خلاف خروج اور بغاوت کرتے رہے اور عباسیوں کی خلافت کو ختم کرنے میں کوشاں رہیں۔آخر میں انہیں کامیابی حاصل ہوہی گیی جب علقمی نے عباسیوں کے آخری خلیفہ المعتصم باللہ کے ساتھ غداری کی اور ہلاکو خان کا ساتھ دے کر خلافت عباسیہ کا خاتمہ کرا دیا۔
750عیسوی سے 1258ء تک قائم رہنے والی خلافت عباسیہ، تاریخ اسلامیہ کی اہم حکومتوں میں سے ایک تھی۔اس خلافت میں تقریباً 37 خلفاء ہوۓ۔آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کا 16 سالہ دور خلافت زیادہ تر عیش و عشرت،غفلت اور غیر ضروری سرگرمیوں میں گزرا۔اس کا،اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ اسے منگول یلغار کی کانوں کان خبر تک نہ ہوئی اور تو اور اس کا ایک بااعتماد شیعہ وزیر ابن القلمی ان کے پہلو میں بیٹھ کر منگولوں سے خط و کتابت کرتا رہا اورانہیں بغداد پر حملہ کی ترغیب دیتا رہا اور خلیفہ وقت کو خبر تک نہ ہوئی۔تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے 29جنوری 1257ء کو بغداد کے محاصرے کا ارادہ کیاچنانچہ حملہ کرنے سے پہلے ہلاکو خان نے خلیفہ مستعصم باللہ کو ایک خط لکھا ” لوہے کے ڈھیلے کو مکہ مارنے کی کوشش نہ کرو،سورج کوبجھی موم بتی سمجھنا چھوڑ دو، بغداد کی دیواروں اور فصیلوں کو خود ہی گرا دو اور اس کے ارد گرد کھودی خندقوں کو صاف کر کے حکومت چھوڑ کر ہتھیار ڈال دواور یاد رکھنا اگر ہم نے بغداد پر چڑھائی کی تو نہ تمہیں زمین میں چھپنے کی جگہ ملے گی اور نہ آسمان پر ‘‘
بغداد اس قدر خوشحال تھا کہ دنیا بھر سے علماء اور دانشور بلا تفریق مذہب و ملت وہاں علم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔یہ شہر تیزی سے سائنسی تجربات کے مراکز میں سے ایک بن گیا ہے۔
سنہ 1258ء کے اوائل میں بغداد پر قبضے کے بعد منگولوں نے بیت الحکمہ لائبریری کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔لائبریری میں محفوظ کتابوں کا بڑا حصہ جل کر راکھ ہو گیا،جبکہ بہت سی کتابوں کو دریائے دجلہ میں پھینک دیا گیا۔اتنے جلے ہوئے نسخے دجلہ میں پھینکے گئے کہ روشنائی اور کالک سے دریا کا پانی سیاہ ہوگیا۔