
آہ ڈاکٹر شمیم صاحب
"انسانیت کے علمبردار کو سچی خراجِ عقیدت کیلئے اس کی زندگی کو مشعل راہ بنانا ہوگا”
ذاکر حسین
بانی:الفلاح فاؤنڈیشن (بلڈ ڈونیٹ گروپ)
جناب ڈاکٹر شمیم احمد صاحب خداداد پور کے انتقال کی خبر سے شدید غمزدہ ہوں۔ مرحوم کی زندگی سادگی، حسن اخلاق، ایمانداری اور انسانوں سے بے پناہ محبتوں پر محیط تھی۔ آپ نے ایک دو نہیں بلکہ اپنے ذریعہ ہزاروں مریضوں اور ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو بلا مفاد پورا کیا۔خدمت خلق کا آپ جیتا جاگتا ثبوت تھے۔ آپ سے منسوب مدد، اخلاق اور ایمانداری کی بہت سے کہانیاں مرحوم والد محترم اور بڑے بھائیوں کے ذریعہ سننے کو ملتی رہتی تھیں۔ آپ کی ایمانداری اور انسانیت کے تیئں رحمدلی کی داستان کوئ اور نہیں بلکہ سنجر پور واقع ان کا دوخانہ سناتا رہا ہے۔ ہم انسانوں میں ایک بہت بڑی خامی ہیکہ ہم زندہ انسانوں کی قدر نہیں کرتے، اس کی خوبیوں کا ذکر کرنے تک سے کتراتے ہیں، لیکن مرنے کے بعد اس شخص کے تعلق سے مدح سرائی کی لمبی لمبی داستانیں ہمارے لبوں اور صفحہ قرطاس پر درج ہوتی ہیں۔ جب تک ہم، آپ زندہ ہیں، شکوہ شکایت، چغلی، غیبت، نفرت، لڑائ جھگڑے کا ایک لامتنا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ کسی کی موت ہمیں پچھتاوے کے ساتھ ساتھ یہ سبق ضرور دیتی ہیکہ ہم انسانوں کو ایک دوسرے کی زندگی میں ہی اس کی قدر کرنی چاہیے۔فیملی اور سماج کیلئے کسی شخص کے ذریعہ پیش کی گئ قربانی اور خدمات کا پوری ایمان داری سے ذکر،قدر اور تسلیم کرناچاہئے۔ڈاکٹر صاحب کو سچی خراجِ عقیدت تبھی پیش کی جاسکے گی، جب ہم ان کی زندگی کو بالخصوص ان کے اہل خانہ اور پورے خطے کے نوجوان (الفلاح سے وابستہ نوجوان) مشعل راہ بنائیں گے۔ہم مرحوم کو سچی خراج تحسین جب پیش کر پانے میں کامیاب ہونگے،جب سنجر پور اور اطراف کے غریب، مجبور،لاچار مریضوں کو سستے علاج کی سہولیات مہیا کرا سکیں گے۔اس خطے کے لوگ چاہیں گے تو ڈاکٹر صاحب کے نام کا ایک چیرٹی ہاسپٹل سنجر پور میں تعمیر کر سکتے ہیں،جو انہیں کے انداز میں مریضوں کیلئے رحمت بننے کا کام کرے۔ان کی زندگی سے جڑی ایک دلچسپ داستان ہیکہ جمعرات کو سنجر پور واقع ان کے دواخانہ کی چھٹی رہتی تھی،اس دن علاقے کے مریضوں کو خود اپنے پیسوں سے گاڑی ریزرو کرا کر اعظم گڑھ میں مختلف ڈاکٹروں کو دکھاتے اور اپنی جانب سے مدد کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں سے بھی رعایت کیلئے کہتے۔احترام اتنا کہ شاید ہی ضلع کے کسی ڈاکٹر نے ان کی باتوں کا انکار کیا ہو۔ مرحوم کی اعظم گڑھ جانے سے لیکر واپسی تک سارے اخراجات خود انہیں کے ذمہ ہوتے۔مرحوم کی یہ ساری خدمات بالکل مفت ہوا کرتے تھیں۔مجھے یاد ہیکہ 2014 میں جب میں دہلی میں زیرِ تعلیم تھا۔اس وقت روزنامہ انقلاب میں پابندی سے میرے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ ایک دن مرحوم ناچیز کے دواخانہ پر تشریف لے گئے اور والد محترم کے ہاتھوں پر میرے نام کا کیش انعام رکھا اور کہا کہ ذاکر صاحب کی تحریروں سے ان کی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہیکہ وہ سماج میں کچھ مثبت تبدیلی لائیں گے۔اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ ڈاکٹر صاحب کی دعا سن لے اور سماج کو میری ذات سے خوب فائدہ پہنچے۔میری تحریر کیلئے وہ کسی کی طرف سے پہلا انعام اور پہلی حوصلہ افزائی تھی۔ سچ ہیکہ آپ سے جڑی یادوں کو بھول پانا مشکل ہوگا، لیکن وقت کی رفتار ماضی کو دھندھلا کر دیتی ہے اور شاید ماضی ہی غم کی لکیروں کو مٹانے کا سب سے بڑا اوزار ہے۔ بے شک وقت کے ساتھ ساتھ غم کی سیاسی چھٹے گی۔اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ مرحوم کی انسانیت کی پیش کی گئ قربانیوں کو قبول کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔