مضامین و مقالات

مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں: مرتب عبدالرحیم

ز فرق تا قَدَمَش ہر کجا کہ می نگرَم
کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست
نظیری نیشاپوری کا یہ شعر مفتی محمد ثناء الہدی صاحب قاسمی کی شخصیت پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ ایسی جامع کمالات شخصیات ہمارے عہد میں نایاب نہ سہی کمیاب ضرور ہیں۔ میں ذاتی طور پر مفتی صاحب کی شخصیت سے بے پناہ متاثر ہوں۔بلاشبہ آپ ایک عالمِ باعمل ہیں، ادیب ہیں، صحافی ہیں، خطیب ہیں، بہت ہی صاف ستھری شبیہ کے ملی رہنما ہیں۔چھوٹے بڑے کئی اداروں سے آپ کی وابستگی ہے۔
بطور نائب ناظم، امارت شرعیہ جیسے بڑے ادارے کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہے۔امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کے آپ مدیر ہیں۔ علاوہ ازیں اردو میڈیا فورم بہار(صدر)، کاروانِ اردو، ویشالی(صدر)،آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ(رکن)، وفاق المدارس الاسلامیہ بہار(ناظم)، آل انڈیا ملی کونسل(رکن)، معہد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی ویشالی(بانی و سرپرست)، نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی(بانی چیرمین)،،مدرسہ فردوس العلوم لعل گنج ویشالی(سرپرست)، مدرسہ اسلامیہ چہرا کلاں، ویشالی(سرپرست)چیئرمین الھدیٰ۔ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، حاجی پور،صدر ادارہ سبیل الشریعہ آواپور، سیتامڑھی،صدذ مدرسہ یعقوبیہ للبنات یکہتھہ مدھوبنی جیسے دینی ، ملی اور ادبی و صحافتی اداروں سے مفتی ثناء الہدی قاسمی کی وابستگی ان کی کثیر الجہتی کا ثبوت ہے۔
اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود مفتی صاحب تصنیف و تالیف کے لیے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ ان کی اب تک چار  درجن سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں تذکرہ مسلم مشاہیرِ ویشالی،بہار مدرسہ بورڈ تاریخ و تجزیہ، دیوان عبدالطیف اوج، تفہیم السنن، اچھا سماج بنایے ، اصلاح کی فکر کیجیے ‘دعوت فکر و عمل، حرف آگہی، یادوں کے چراغ(دو جلد )، نئے مسائل کے شرعی احکام، نامے میرے نام، حرف حرف زندگی، نقد معتبر، آدھی ملاقات،  دیوان اوج (مرتب ) آوازۂ لفظ و بیاں وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کو ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں 5 ستمبر 2001 ء کو صدر جمہوریہ ہند کے آر نارائنن کے ہاتھوں صدارتی ایوارڈ سے بھی  نوازا جا چکا ہے۔
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کی پیدائش 4 فروری 1963  کو ویشالی ضلع کے حسن پور گنگھٹی گاؤں میں ہوئی۔ آپ کے والد محمد نور الہدی ؒ ہایی اسکول میں انگریزی اور تاریخ کے استاذ تھے۔ مفتی صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ابتدائی تعلیم میں ان کی پھوپھی راشدہ خاتون مرحومہ کا اہم کردار رہا۔ مدرسہ احمدیہ ابابکرپور ویشالی اور دارالعلوم مئو سے حفظ قرآن کی تکمیل ہوئی۔ فضیلت اور تمرین افتاء کی سند دارلعلوم دیوبند سے حاصل کی۔
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے اس کے علاوہ مدرسہ بورڈ بہار سے اردو، عربی، فارسی اور حدیث میں فاضل کی ڈگریاں حاصل کیں۔  بی آر اے بہار یونیورسٹی مظفرپور سے فارسی ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ مفتی صاحب کو اللہ نے بچپن سے ہی ذہانت عطا کی تھی۔ ان کی پہلی تخلیق "خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں” المفتاح ، مؤ میں 1977 ء میں ثناء الہدی عاصی کے نام سے شائع ہوئی۔اس وقت مفتی صاحب صرف 14 سال کے تھے۔ اس کے بعد بھی ان کے کئی افسانے ضیاء رحمانی اور ثنا نوری کے نام سے شائع ہوتے رہے۔
مفتی صاحب نے ابتداء میں افسانے لکھے، ان کے کچھ خاکے بھی ملتے ہیں۔انہوں نے شاعری میں بھی طبع آزمائی کی لیکن ان کے قومی و ملی درد نے انہیں "تخلیق” کی بجائے "تعمیر” کی طرف راغب کر دیا۔ پھر وہ قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے ایسا وقف ہوئے کہ ان کی ادبی سرگرمیاں رفتہ رفتہ کم ہونے لگیں۔ آج دنیا مفتی صاحب کو ایک ہر دل عزیز عالم دین، مبلغ، داعی، خطیب اور ملی رہنما کے طور پر تو جانتی ہے لیکن کم لوگ ہی واقف ہیں کہ مفتی صاحب ایک صاحب طرز ادیب اور انشاء پرداز بھی ہیں۔ ادبی موضوعات پر ان کے معروضی تاثرات دانشورانِ ادب کو حیرت میں ڈالتے ہیں۔ مفتی صاحب کے ادبی مضامین اور تبصرے ان کے ادبی شعور کا اعتراف کرواتے ہیں۔
مفتی صاحب کی شخصیت کا اختصاص ان کا متوازن طرز عمل اور طرز اظہار ہے۔ گفتگو کی طرح ان کی شخصیت میں بھی ٹھہراؤ ہے، سنجیدگی ہے، متانت ہے۔ وہ ایک طرف تعلق اور رواداری کا بھی خیال رکھتے ہیں ، دوسری طرف معروضیت کا دامن بھی نہیں چھوڑتے۔ وہ تعلق نبھانے کے لیے غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کہنے کی "مصلحت” کو درست نہیں سمجھتے۔ وہ بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اپنی رائے پیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ دوسرے "بے لاگ مبصر” اور "خطیبوں” کی طرح وہ اپنے مخالفین کی بھیڑ بھی جمع نہیں کرتے ہیں۔ انہیں اپنی بات کہنے کا سلیقہ آتا ہے۔ وہ جانتے ہیں  ؎
کون سی بات  کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
عام طور سے علمی اور سماجی میدان میں سرگرم افراد کی خانگی زندگی اچھی نہیں ہوتی۔ بڑی بڑی مذہبی اور علمی و ادبی شخصیات کی ازدواجی زندگی انتہائی ناکام گزری ہے۔ تصنیف و تالیف کی دنیا میں مشہور و معروف شخصیتوں کا سماجی اور عوامی رابطہ کمزور ہو جاتا ہے۔ یقیناً اس کی وجوہ بھی ہیں۔ خاندانی اور سماجی رشتے ناطوں کو نبھاتے ہوئے سنجیدہ علمی کاموں کو انجام دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے یہاں بھی نظیر قائم کی ہے۔ آپ کا خاندانی اور سماجی رابطہ انتہائی مضبوط ہے۔ مفتی صاحب اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اپنے اہل خانہ، رشتہ داروں اور چاہنے والوں کے لیے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ معمولی سے معمولی انسان بآسانی ان سے ملاقات کر سکتا ہے۔ ان کی زندگی تصنع سے خالی ہے۔
آج کے پرآشوب دور میں ایسی جامع کمالات شخصیت کی موجودگی اندھیرے میں امید کی کرن جیسی نظر آتی ہے۔ مفتی صاحب کی شخصیت اور کارناموں پر ڈاکٹر مشتاق احمد مرحوم نے بہت ہی عمدہ کام کیا تھا۔ ان کی کتاب "مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی شخصیت اور خدمات” بہت پہلے  شائع ہو چکی ہے۔ مفتی صاحب کی ادبی خدمات پر ڈاکٹر راحت حسن نے متھلا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ زیر نظر کتاب "مفتی ثناء الہدی قاسمی شعرا کی نظر میں” کے مرتب  عبدالرحیم برہولیاوی ہیں۔آپ نوجوان ہیں ،لکھتے پڑھتے رہتے ہیں گاہے بگاہے چھپتے بھی رہتے ہیں۔ معہد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی ویشالی میں استاد ہیں۔
 عبدالرحیم برہولیاوی نے اس کتاب میں شعرا و شاعرات کے کلام جمع کیے ہیں۔ جن میں شعرا نے مفتی صاحب کے تئیں اپنی بھرپور عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے اور مفتی صاحب کی علمی، ادبی ، مذہبی، سماجی و فلاحی خدمات کو منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے۔ بلاشبہ شاعری کی اپنی ایک الگ تاثیر ہوتی ہے۔ بعض اشعار تو اتنے اثر آفریں ہوتے ہیں کہ سیدھے دل سے دل تک پہنچتے ہیں۔اس کتاب میں شامل کلام بھی اسی نوعیت کے ہیں۔پروفیسر   طرزی،ڈاکٹر امام اعظم، حسن نواب حسن، مولانا سید مظاہر عالم قمر،زماں بردہوای، امان ذخیروی ، محمد انوار الحق دائود قاسمی، مولانا طارق ابن ثاقب پورنوی اور منصور قاسمی جیسے معتبر شعرا کے کلام کتاب کو اعتبار عطا کرتے ہیں۔ البتہ بعض کلام کتاب کے معیار کو متاثر کرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مفتی صاحب کے تعلق سے”منظوم” جیسی نظر آنے والی سبھی چیزیں کتاب میں شامل کر لی گئی ہیں۔
بہرحال!  عبدالرحیم برہولیاوی نے مفتی صاحب کے تعلق سے اتنے سارے منظوم کلام کو یکجا کر کے ایک بڑا کام کیا ہے، جس کی ستائش کی جانی چاہیے۔ کتاب کی اشاعت پر مرتب کتاب اور معتقدین مفتی ثناء الہدی قاسمی کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔
…………….
  کامران غنی صبا
شعبۂ اردو نتیشور کالج ، مظفرپور

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button