
مضامین و مقالات
آزادی کا مقصد اور اسے بچانے کا چیلنج
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ملک کو آزادی کتنی محنت اور قربانیوں کے بعد ملی تھی ۔ ہمارے بیچ اب ایسا کوئی نہیں ہے جو بتا سکے ۔ ہزاروں لوگ تختہ دار پر چڑھا دیئے گئے اور کتنوں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا ۔ انگریزوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان تو1857 میں بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں ہوا ۔ لیکن آزادی کی پہلی لڑائی 1757 میں نواب سراج الدولہ نے پلاسی کے میدان میں لڑی ۔ میسور کے ٹیپو سلطان 1799 میں انگریزوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے سری رنگا پٹم میں شہید ہوئے ۔ سید احمد بریلوی اور اسمعیل شہید بالا کوٹ میں انگریزی فوج کے دانت کھٹے کرتے ہوئے1831 میں ملک پر قربان ہو گئے ۔ آزادی کی جو شمع 1857 میں روشن ہوئی اس نے دھیرے دھیرے پورے ملک کو اپنے آغوش میں لے لیا ۔ آزادی کی شمع کو رانی لکشمی بائی، تانتیا ٹوپے، اودھ کے نواب واجد علی شاہ اور نہ جانے کتنے آزادی کے سپاہیوں نے اپنا خون دے کر روشن رکھا ۔ کتنوں کو کالے پانی کی سزا ہوئی، کئی کو مالٹا کی جیل میں بند کیا گیا تو کئی کو ملک چھوڑنا پڑا ۔ ملک جلتا رہا، آزادی کی آگ سلگتی رہی اور بالآخر طویل جدوجہد کے بعد 1947 میں آزادی ملی ۔
گاندھی جی جب بھارت آئے اس وقت آزادی کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی تھی ۔ ہر عمر کے لوگ تحریک آزادی میں شامل ہو رہے تھے سوائے ہندو وادی سوچ رکھنے والوں کے ۔ ریشمی رومال تحریک ناکام ہو چکی تھی ۔ بنگال کی تقسیم کا فیصلہ انگریزوں کو واپس لینا پڑا تھا ۔ دادا بھائی نوروجی، لالہ لاجپت رائے، گوپال کرشنن گوکھلے، بال گنگا دھر تلک، اروبندو گھوش، موتی لال نہرو، شیخ الہندؒ مولانا محمود الحسن، مولانا محمد علی، شوکت علی، مولانا آزاد، ڈاکٹر سید محمود، جواہر لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، اللہ بخش، جسٹس عباس طیب اور بہت سی نامور ہستیاں تحریک آزادی میں پیش پیش تھیں ۔ گاندھی جی نے آزادی کے لئے ملک کو عدم تشدد کا راستہ سجھایا ۔ جبکہ شعلہ رو نوجوان انگریزوں سے لڑ کر آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ ان میں چندر شیکھر آزاد، بھگت سنگھ، سکھ دیو، اشفاق اللہ خان، رام کمار بسمل، سبھاش چندر بوس وغیرہ شامل تھے ۔
گاندھی جی نے سبھاش چندر بوس کو سمجھایا تھا کہ انگریزوں کے پاس منظم فوج ہے جو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے ۔ ہمارے پاس نہ ان جیسے ہتھیار ہیں اور نہ ان کے سپاہیوں جیسی تربیت ۔ سبھاش چندر بوس کا استدلال تھا کہ 38 کروڑ بھارتیوں پر ایک لاکھ انگریز حکومت کیسے کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کئی ممالک سے مدد مانگی، ملک کے عوام کے بیچ نعرہ دیا "تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا”۔ پھر اپنی آزاد ہند فوج بنا کر انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی ۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے عوام نے اتنی محنت اور جدوجہد کیوں کی؟ کیا روٹی، کپڑا، مکان کی بنیادی سہولیات کی کمی تھی؟ کیا انگریزوں کو ہٹا کر وہ بھارت کے لوگوں کو حاکم بنانا چاہتے تھے؟ آزادی کی تحریک میں ملک کے جدید تعلیم یافتہ، صاحب حیثیت، باصلاحیت حضرات کیا کسی معمولی تبدیلی کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا کر آگے آئے تھے؟ اگر نہیں تو پھر وہ کیا چیز تھی جس نے بزرگوں اور نوجوانوں کو جان کا نذرانہ پیش کرنے پر مجبور کیا؟
دراصل انسان فطری طور پر آزاد رہنا پسند کرتا ہے ۔ اسے بندش اور بے جا پابندی منظور نہیں ۔ انسان پر عدل کا دوہرا معیار گراں گزرتا ہے ۔ انگریزی حکومت میں ہر حال میں ہندوستانی عوام ہی سزا کے مستحق تھے ۔ ان کے قوانین استحصال پر مبنی تھے ۔ پھر جان، مال، عزت، آبرو، زمین، جائیداد کچھ بھی محفوظ نہیں تھا ۔ ہر چیز پر انگریزوں کا تسلط تھا، کھیتی باڑی تک کے لئے ان کی مرضی کا خیال رکھنا پڑتا تھا ۔ وہ کسی بھی چیز پر کتنا ہی ٹیکس لگا دیتے تھے ۔ ٹیکس اور لگان کی وصولی میں ظلم کی حد تک سختی برتی جاتی تھی ۔ اظہار رائے کی آزادی نہیں تھی، ظلم کے خلاف بولنے والوں کی زبان کاٹ دی جاتی ۔ لکھنے والوں کا قلم ہی نہیں سر تک قلم کر دیا جاتا تھا ۔ دہلی اردو اخبار کے مدیر مولوی باقر علی اس کی مثال ہیں ۔ مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز کو پولس کے ذریعہ دبا یا خاموش کر دیا جاتا تھا ۔ ایک ہندوستانی شہری کی انگریزوں کے نزدیک کوئی وقعت نہیں تھی ۔ پورا ملک خوف و دہشت کے سائے میں جی رہا تھا ۔ صنعت و حرفت، زراعت الغرض کھانے پینے، رہنے سہنے تک پر پہرہ تھا ۔ بھارت جو دستکاروں کا ملک تھا انگریزوں نے اس کی حیت ہی بدل دی ۔ سماج کا کوئی بھی طبقہ ایسا نہیں تھا جو ان کے ظلم و ستم سے محفوظ ہو ۔ ملک کے وسائل اور خزانہ برطانیہ منتقل ہو رہا تھا۔
گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک ملک کا آخری آدمی یہ محسوس نہ کرے کہ وہ آزاد ہے ۔ اور جواہر لال نہرو کسانوں کو زمینداروں کے چنگل سے آزاد کرانا، صنعتوں کی ترقی اور صحت و تعلیم کے نظام کو مضبوط کرنا چاہتے تھے ۔ اس لحاظ سے آزادی کا جائزہ لیں تو 75 سال میں بھی ہم آزادی کا مقصد حاصل نہیں کر پائے ہیں ۔ موجودہ حکومت کی پالیسی پر تنقید کرنے والے پولس اور ایجنسیوں کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ مظلوم کے خلاف کارروائی، مذہب اور ذات کی بنیاد پر قانون کا نفاذ اور عدلیہ کے یک طرفہ فیصلے ۔ بھوک، غربت، بے روزگاری، مہنگائی، صحت اور تعلیم کے کمزور نظام کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے ظلم و تشدد کے واقعات آزادی کا خواب دیکھنے والوں کی توہین ہیں ۔ آزادی کے سپاہیوں کے خلاف ملک کے جو لوگ انگریزوں کے ساتھ کھڑے تھے، شاید انہیں دھیان میں رکھ کر برطانیہ کے وزیر اعظم چرچل نے کہا تھا کہ اگر انگریز بھارت سے چلے گئے تو ان کے ذریعہ تیار کی گئی عدلیہ، صحت کا نظام، ریلوے، عوامی کاموں کے اداروں کا پورا نظام ٹھپ ہو جائے گا ۔ بھارت صدیوں پہلے کی بربریت، قرون وسطی کی لوٹ کھسوٹ کے دور میں واپس چلا جائے گا ۔ بھارت کے لوگ ملک کو چلا نہیں سکیں گے ۔ ذات پات اور سماجی تفریق کے سبب لوگ آپس میں لڑیں گے اور ملک کے کئی ٹکڑے ہوں گے ۔
آزادی ملنے کے بعد ملک کی کمان پنڈت نہرو نے سنبھالی ۔ 17 سال تک وہ ہندوستان کو معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم کرتے رہے ۔ وہ جانتے تھے کہ یونین جیک اتار کر لال قلعہ پر ترنگا لہرانے کا مطلب آزادی نہیں ہے ۔ آزادی پانے کے مقابلہ اسے قائم رکھنا زیادہ بڑا کام ہے ۔ نہرو نے تمام چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے ملک کو جن بنیادوں پر استوار کیا اس نے چرچل کی پیشین گوئی کو غلط ثابت کیا ۔ بھارت نہ ٹوٹا، نہ بکھرا بلکہ ہر میدان میں آگے بڑھا اور مضبوط تر ہوا ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان نے دنیا کے باعزت، با اثر ممالک کی صف میں اپنا الگ مقام بنایا۔اقتصادی میدان میں خود انحصاری پالیسی پر عمل کیا ۔ دنیا کے بڑی معیشت والے ممالک میں آج اس کا شمار ہوتا ہے ۔ آج بھارت جوہری طاقت رکھنے والا ملک ہے۔ ہوائی اور بحری جنگی جہازوں میں خود کفیل ۔ اگنی اور چار جدید ترین نئے میزائلوں کے ساتھ برصغیر کی ایک عظیم فوجی طاقت ہے ۔چاند کی سطح پر چندریان اتارنے اور مریخ مشن کو سر کرنے والے ملکوں میں اس کا شمار ہے ۔ ملک میں قومی یکجہتی، انیکتا میں ایکتا کو ہر حال میں باقی رکھا گیا یعنی ہمارے پاس ایسی کامیابیاں ہیں جو بھارت کی خودمختاری کو طاقت دیتی ہیں ۔
آزادی کے ساتھ تقسیم کا زخم ملک کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ عام طور پر تقسیم کی ذمہ داری مسلم لیگ اور مسلمانوں کے سر مڑھ کر کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا حصہ لے چکے ہیں ۔ انہیں بھارت میں رہنے کا اب کوئی حق نہیں ۔ تاریخ کے ماہر رام پنیانی کے مطابق حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے ۔ تقسیم میں دو قومی نظریہ نے اہم کردار ادا کیا تھا ۔ جس کے موجد ہندو مہاسبھا کے ساورکر ہیں ۔ ساورکر نے 1857 کی تحریک آزادی پر کتاب لکھی ۔ جس میں انہوں نے انگریزوں کے خلاف اس آندولن کو ہندو مسلمانوں کی عیسائیوں کے خلاف مشترکہ لڑائی بتایا تھا ۔ اس کتاب کی وجہ سے انہیں کالے پانی کی سزا ہوئی ۔ جیل سے رہائی کے لئے انھوں نے انگریزی سرکار کو متعدد معافی نامے لکھے۔ خود کو برطانیہ کا بھٹکا ہوا بیٹا بتایا۔ یہ بھی یقین دلایا ہے کہ رہائی کے بعد وہ برطانوی حکومت کے منصوبوں کی کامیابی کے لئے کام کریں گے ۔ انگریزوں نے اپنے مقاصد کے لئے نہ صرف انہیں جیل سے رہا کیا بلکہ ساٹھ روپے مہینے کا وظیفہ بھی مقرر کیا ۔
مسلم لیگ نے بعد میں اسی دو قومی نظریہ کا فائدہ اٹھایا ۔ اور یوں نظریہ پاکستان نے جنم لیا ۔1937 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو زیادہ کامیابی نہیں ملی لیکن 1946 میں مسلم لیگ نے اسی نعرے کی بنیاد پر تمام مسلم سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ۔ بنگال اور سندھ میں مسلم لیگ نے ہندو مہاسبھا کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ شیاماپرساد مکھرجی بنگال کی حکومت میں کابینہ وزیر تھے ۔ سندھ کی حکومت نے ملک کی تقسیم کا ریزولوشن پاس کرکے برٹش حکومت کو بھیجا ۔ واضح رہے کہ ہندو مہاسبھا اس حکومت میں شامل تھی ۔
مسلم لیگ نوابوں اور زمینداروں کی پارٹی تھی۔جسے کچھ کاروباری و دولت مند گھرانوں کی بھی حمایت حاصل تھی ۔
عام اور غریب مسلمان تقسیم کے حق میں نہیں تھے ۔ 1940 میں پارٹیشن کی مخالفت کے لئے دہلی میں آزاد مسلم کانفرنس بلائی گئی۔ اللہ بخش اس کے بڑے لیڈر تھے ۔ جو انگریزوں کے خطاب یافتہ تھے ۔ بعد میں انہوں نے اپنے تمام خطاب برٹش حکومت کو واپس کر دیئے تھے ۔ کانفرنس کے وقت بھی وہ سندھ کے وزیراعظم تھے ۔ کانفرنس میں پچاس ہزار لوگ شریک ہوئے جن میں پانچ ہزار خواتین تھیں ۔ 1941 میں مومن کانفرنس نے تقسیم کے خلاف دہلی میں بڑا احتجاج کیا ۔ وکی پیڈیا پر تقسیم ملک کی مخالفت کرنے والے افراد و تنظیموں کی طویل فہرست موجود ہے ۔ پاکستان جانے والوں میں مسلم زمیندار، صنعت کار، سرکاری ملازمین، پولس اہلکاروں کی بڑی تعداد جو اچھی نوکری، بڑے کاروبار اور زمینداری کے لالچ میں وہاں چلی گئی ۔ مگر اس تقسیم میں لاکھوں افراد کی جان گئی اور کروڑوں روپے کی املاک تباہ ہوئی ۔ 1857 سے لے کر 1947 تک ملک کا اتنا بڑا نقصان نہیں ہوا جتنا پارٹیشن میں ہوا ۔ مولانا آزاد، ڈاکٹر سید محمود، رفیع احمد قدوائی، عبدالقیوم انصاری، مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ نے تقسیم کے وقت عام مسلمانوں کو ملک نہ چھوڑنے پر آمادہ کیا ۔
بہر حال ملک تمام چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے جس طرح آگے بڑھ رہا ہے ۔ اس میں ایک ایک شہری کی حصہ داری اور حکومت کے فیصلوں کا دخل ہے ۔ لیکن گزشتہ دس سال ملک پر بہت بھاری گزرے ہیں ۔ اب بھی حکومت مطلق العنانی پر آمادہ ہے ۔ آئین کو طاق پر رکھ کر من مانی کی جا رہی ہے ۔ پارلیمنٹ میں پیش ہوا وقف ترمیمی بل اس کی مثال ہے ۔ ملک بے روزگاری، مہنگائی، بھک مری، پیپر لیک، کارپوریٹ اور ہندوتوا کا گٹھ جوڑ، کسانوں کی خود کشی، زراعت، غربت، گرمی، سیلاب سے موت اور پیدا ہوئے کے مسائل سے نبردآزما ہے ۔ اپوزیشن ان مسائل کو شدت سے اٹھا رہا ہے لیکن حکومت ان پر توجہ دینے کے بجائے نفرت کے ایجنڈے پر عمل کر رہی ہے ۔ پولس اور ایجنسیوں کے دم پر حزب اختلاف کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ موجودہ دور حکومت میں دلت، آدی واسیوں، مسلمانوں کو نشانہ بنانا عام بات ہو گیا ہے ۔ رکشہ چلانے والے، چوڑی بیچنے والے، کباڑی، ٹھیلا لگانے والے، سبزی، پھل بیچنے اور کوڑا بیننے والوں تک کو نام پوچھ کر مارا پیٹا جا رہا ہے ۔ اور پولس مظلوموں، مقتولین پر ہی مقدمہ قائم کر رہی ہے ۔ پارلیمنٹ میں اٹھنے والے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے الٹے اپوزیشن سے سوال کیا جا رہا ہے ۔ حزب اختلاف ہی برسر اقتدار جماعت کی تنقید کا نشانہ بن رہا ہے ۔ اپوزیشن لیڈر کی کردار کشی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ٹیلیفون ٹیپ کیس یعنی پیگا سس جاسوسی، ہڈن برگ رپورٹ میں سیبی کی چیرمین مادھوی بچ اور اڈانی کی کمپنیوں کے نام آنے کے معاملہ میں حکومت کچھ بتانے کو تیار نہیں ہے ۔ گرتی ہوئی معیشت، قانون اور آئین کی پامالی اپنی انتہا پر ہے ۔ اس میں بی جے پی اور اس کی حلیف ٹی ڈی پی، جے ڈی یو بھی برابر کی شریک ہے ۔ ایسے میں یہ عوام کو طے کرنا ہے کہ وہ آزادی کا جشن منا کر خوش ہوں یا پھر آزادی کو بچانے کے لئے موجودہ چیلنجز کا سامنا کریں ۔
فیض احمد فیض نے کہا تھا :
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
بڑھے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں