
کیا 2024 عام انتخاب غیر متنازع ہوئے ہیں ؟
۔ نقاش نائطی
۔ +9665626777707
واراناسی میں پی ایم مودی کے حلقہ میں کل ووٹ جو پڑے تھے 11 لاکھ لوگوں نے ووٹ ڈالے تھے، لیکن ای وی ایم مشین نے 12 لاکھ 87 ہزار ووٹ کا رزلٹ دیا۔1 لاکھ 87 ہزار ووٹ کہاں سے آئے؟ مودی جی تو ای وی ایم رزلٹ کے اعتبار سے1 لاکھ 50 ہزارووٹوں سے جیتے تھے اگر ای وی ایم مشین خود کار طریقے سے یا ای ٹیکنالوجی مدد چھیڑ چھاڑ سے 1لاکھ 87 ہزار ووٹ مودی جی کو زیادہ نہ دئیے گئےہوتے تو مودی جی بھی 35 سے 38 ہزار ووٹوں سے شکت فاش کھاچکے ہوتے۔ اور انکی شکشت فاش بعد مودی جی 3 حکومت سازی کا معاملہ ہی باقی نہیں رہتا۔ ای وی ایم چھیڑ چھاڑ شکست کو جیت میں بدلنے کا کھیل صرف بنارس پی ایم مودی جی کے حلقہ میں ہی نہیں ہوا ہے۔ بلکہ 373 لوک سبھا حلقوں کے نتائج کو ای وی ایم چھیڑ چھاڑ بدلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ آل انڈیابہوجن کرانتی مورچہ BAMCAF کے آل انڈیا صدر وامن مشرا کہہ رہے ہیں۔وامن مشرام کافی لمبے عرصے سے دیش کی سب سے بڑی عدلیہ سپریم کورٹ میں اپنا کیس لڑتے ہوئے، ای وی ایم طرز انتخاب کے مقابلے، بھارت میں بیلٹ پیپر طرز انتخاب لانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اب یہ حالیہ 2024 عام انتخاب نتائج سے عین پہلے، گذشتہ انتخاب 2019 کم ووٹ تناسب سے بی جے پی کے جیتے ہوئے 150 حلقوں والے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو وزارت داخلہ کی طرف سے، فون کرتے ہوئے، انتخابی نتائج اثرانداز ہونے کی سنگھی امیت شاہ کی کوشش جو منظر عام پر آئی تھی۔کیا اس پر تحقیقات ہوئی ہے۔ یا انتخاب کے بعد اسے بھول چھوڑ دیا گیا ہے۔ جس جس حلقہ سے کم ووٹ تناسب سے بی جے پی امیدوار جیتے ہیں ان تمام حلقوں سے ہارنے والے کسی بھی پارٹی امیدوار کو چاہئیے تھا کہ انکی طرف سے، وی وی پیٹ ووٹ پرچیوں کی گنتی کروانے کا چیلنج کیا جاتا۔ سو ڈیڑھ سو حلقوں میں دوبارہ گنتی پر کچھ غیر بی جے پی امیدوار جیتتےپائے جائیں تو یہ بی جے پی کے لئے بہت بڑی ہتک ثابت ہوسکتی تھی۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہوتی ہے کہ ہمہ وقت یا مستقل مزاجی کے ساتھ تگ و دو کرنے والے،ایک نہ ایک دن کامیابی سے سرشار ہوا کرتے ہیں۔ ہار تسلیم کر خاموش بیٹھنے والوں کو یہ خوشی کہاں میسر آسکتی ہے؟ بام سیف وامن مشرام کی دیش کے سیکیولر دستورالعمل بچانے کی قانونی جنگ میں،پورے بھارت کے تمام تر سیکیولر ذہن ھندو مسلمان کی طرف سے، وامن مشرام کی مدد و نصرت کی جانی چاہئیے۔ 2024 عام انتخاب اس ذلت آمیز شکشت باوجود جس ڈھٹائی کے ساتھ خود ساختہ بھگوان ایشور کے انسانی روپ مودی جی نے،اقتدار سے چمٹے رہنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اور جس طرح سے، اس کسم و پرسی والی تیسری حکومت سازی میں بھی، انہیں اپنی بیساکھیوں سے حکومت سازی مدد کرنے والے پلٹو رام اور ٹی ڈی پی لیڈر چندرا بابو نائیڈو کی ہتک کرتے ہوئے، تمام بڑی وزارتیں مودی جی نے اپنے پرانے وزیروں کو ہی دی ہوئی ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ ان وزارتوں سے سنگھی گجراتی پونجی پتیوں کی غیر ضروری فائیدہ پہنچائے حکومتی کاغذات درستگی کرنے کے،اپنے لاحیہ عمل پر نہ صرف گامزن ہیں۔