” سسٹم کو بدلنا ہے تو پہلے خود کو بدلنا ہوگا "
فرنود رومی، مالیگاؤں
توکل علی اللہ کے دعویدار ہم آج کے مسلمان، خود کو رزاق دوجہاں کےمقام متمیز پر رکھتے ہوئے، رزق حلال کے بجائے رزق حرام کمائے جارہے ہیں،جھوٹ مکر و فریب ،وعدہ وفائی سے اجتناب، بے ایمانی کذب گوئی کو حسن اسلوب تجارت مانے، دونوں ہاتھوں سے خود اپنوں ہی کو لوٹنے ہی میں مست و و مگن ہیں اور حرام رزق سے پلی بڑھی اولاد کے نافرمان ہونے کے لئے بھی، قدرت ہی کو ذمہ دار ٹہراتے پائے جاتے ہیں. ابن بھٹکلی
عزیزی یعقوب ممتا صاحب سے ہماری قوم کی زبوں حالی اور اس کے علاج پر گفت و شنید ہورہی تھی۔
موصوف نے بڑی اچھی مثال دی کہ،
ایک استاذ نے نئی نئی موٹر سائیکل خریدی۔سارے پرزے ورزے برابر ہیں یانہیں اچھی طرح سےچیک کرلیا۔ٹائر دیکھا تو ہوا اچھی خاصی تھی۔اچانک سے کیا سوجھا کہ گاڑی کی ہوا نکال دی اور قریب میں واقع عبدل پنکچر والے کی دکان پر پہنچے۔کہا پنکچر چیک کر لو۔میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں.
عبدل نے چیک کیا۔کہیں پنکچر نہیں تھا۔اس نے ہوا بھر کر ایک کنارے کھڑا کردیا.
استاذ جی آدھے پون گھنٹے بعد پہنچے۔پوچھا، "کتنا ہوا؟” کہا، "سر دو پنکچر تھے۔بنادیا ہے۔آپ سے زیادہ نہیں لیں گے.80 روپے دے دیجیے.”
سر مسکرائے، کہا۔ "بیٹا ایک بات کہوں؟ ٹائر بالکل صحیح تھے۔میں نے جان بوجھ کر ہوا نکال کر گاڑی تمہیں سونپی تھی۔مگر تم نے پنکچر نہ ہوتے ہوئے بھی پنکچر بنادیا۔بس یہی ہماری قوم کے پیچھے رہ جانے کی وجہ ہے۔”
ہمارے اندر خدا کا ذرا بھی خوف نہیں رہا ہے۔بس مال آرہا ہے، آنے دو۔کہاں سے آرہا ہے اس کی کوئی فکر نہیں۔کیا چھوٹا کیا بڑا، کیا عامی کیا سیاسی، ہر کوئی اس مرض میں مبتلا ہے.اگر پنکچر والا چاہتا تو ٹائر کھولنے، چیک کرنے اور فٹ کرنےکی اپنی جائز اجرت مانگ سکتا تھا۔وہ حلال بھی ہوتی۔مگر اس نے بے ایمانی کرکے اسی حلال کمائی کو حرام کر لیا۔
ساتھیو! بس ہمیں اسی مرض سے نکلنا ہے۔ہم چاہے کوئی چھوٹے موٹے کاروباری، دکاندار یا پیشہ ور شخص ہوں، ہمیں اس بات کا خوف ہو کہ ایک دن خدا کے حضور پیش ہونا ہے.ہم غلط کریں گے تو پورا سسٹم بھی غلط رخ پر ہوگا۔ہم صحیح ہونگے تو سسٹم خود بخود صحیح ہوگا۔یاد رکھیے کہ شروعات ایک عام شخص ہی سے ہوگی.
افسوس! ہم نے کیا کِیا؟ رشوت دے دے کر مختلف سرکاری درباری ڈپارٹمنٹس میں لوگوں کو لالچی اور رشوت خور بنادیا، ان کے حوصلے بلند کردیے۔ہم ہی ان خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔اب ہمیں خود کو بدلنا ہوگا تبھی سسٹم بدل سکے گا۔ورنہ یہ نظام اسی بے ڈھنگے انداز میں چلتا رہے گا اور نتیجتاً ضرورت مند افراد جو سسٹم کے اس طریقے کو نہیں اپنا سکتے، اس کی چکّی میں بُری طرح پِستے رہیں گے