دن کا خواب
ایاز احمد اصلاحی ات
لکھنؤ یونیورسٹی
29- 02- 2024
کل سے بخار اور زکام کی وجہ سے طبیعت کچھ ناساز ہے۔آج صبح بھی طبیعت بہتر نہیں لگی، اس لیے آج چھٹی لیکر گھر پر آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد خود کو راحت دینے کے لیے بستر سے پیٹھ لگائی اور جلد ہی نیند کے آغوش میں چلا گیا۔
اس بیچ خواب کی دنیا میں پیش آنے والے دو واقعات نے نہ صرف میری نیند اڑادی بلکہ مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جی چاہتا آپ کو بھی ان خوابوں میں شریک کر لوں۔ شاید کہ اتر جائے "کسی” دل میں مری بات۔۔۔
*پہلا واقعہ*
پہلے واقعے سے ایسا لگا جیسے یہ دوسرے واقعے کی تمھید ہو۔۔۔ اس کا منظرنامہ یہ ہے کہ دیکھتا ہوں کہ ایک جگوار کی صورت کا خطرناک جانور غراتے ہوئے دھیرے دھیرے میری طرف بڑھ رہا ہے،شروع میں تو شدید خوف محسوس ہوا لیکن میں جلد ہی اپنے ڈر پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا اور سوچا اگر اس مرحلے پر ڈر گیا تو سمجھو مر گیا۔۔۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میری اپنی گرج اور جوابی اقدام کی وجہ سے وہ جگوار ایک دم سے مجھ پر حملہ کرنے سے گریز کرتا رہا۔ البتہ اس بیچ وہ غراتے ہوئے میری طرف رینگ رینگ کر بڑھتا رہا ۔۔۔ یہ ایک تنگ گزرگاہ ہے جہاں سے میں الٹے پاؤں پیچھے ہٹ رہا ہوں۔ میرا حال یہ ہے کہ میں اپنے دفاع میں تھوڑا تھوڑا پیچھے بھی ہٹ رہا ہوں اور ساتھ ہی اس کی طرف اپنے ہاتھ بڑھا کر اس پر جوابی حملے کا اشارہ دیتا ہوں تاکہ اسے پیچھے ہٹنے اور واپس جانے پر مجبور کرسکوں۔اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی مجھ پر آخر تک حملہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکا۔یہاں تک کہ میں ایک ایسی جگہ پہنچ جاتا ہوں جو مجھے اپنی دفاعی حکمت عملی طے کرنے کے نقطہ نظر سے زیادہ وسیع اور محفوظ محسوس ہوئی۔۔یہاں پہنچ کر وہ ہیبت ناک جانور آگے بڑھنے کی بجائے واپس چلا جاتا ہے اور اب میں خود کو محفوظ پاکر راحت کا سانس لیتا ہوں اور اپنے بچوں کو صورت حال سے باخبر کرنے کے لیے آواز دیتا ہوں۔
*دوسرا واقعہ*
دوسرا واقعہ مجھے پہلے واقعے سے بھی زیادہ تشویشناک محسوس ہوا۔ اس نے مجھے خواب میں بھی پریشان کیا اور اب بھی بے حد پریشان کر رہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے یہ واقعہ اس ملک اور اس میں صدیوں سے بسی ایک امت کے پر خطر مستقبل کا ایک واضح بیانیہ محسوس ہوا۔ اس واقعے میں ہوتا یہ ہے کہ میں نسبتا ایک کشادہ راستے سے گذر رہا ہوں جس کے آس پاس برادران وطن کی اکثریت بسی ہوئی تھے اور راستے کے ایک طرف گڈھے اور کھائیاں تھیں اور دوسری طرف ان کے مکانات تھے۔ چلتے چلتے وہاں میں نے جو کچھ دیکھا وہ اگر چہ آج کل کے ماحول میں کوئی نیا اور غیر متوقع حادثہ تو ہرگز نہیں تھا لیکن وہ اس ملک کے موجودہ حالات (جو ہندوتو کی فسطائی ذہنیت کی پیداوار ہیں) کا پوری طرح عکاس ضرور تھا۔ ہوا یہ کہ میں کسی سمت اپنے راستے پر آگے بڑھ رہا ہوں کہ اچانک دیکھتا ہوں کہ سامنے ایک ہندو شخص ایک مسلم شخص کو لکڑی کے ایک موٹے اور طویل ڈنڈے سے پوری بے رحمی سے مار رہا ہے۔ مجھ سے یہ ظلم دیکھا نہ گیا اور حسب عادت میں یہاں بھی مداخلت سے باز نہیں آیا۔ بلکہ پوری بے خوفی سے آگے بڑھ کر ان دونوں کے درمیان آگیا اور جارح شخص کا ڈنڈا پکڑ لیا (یا اس کے سامنے آگیا) اور اسے روک کر پوچھا کہ آخر تم اسے اس بے رحمی سے کیوں مار رہے ہو۔اس نے کہا یہ مسلمان ہے، میں نے کہا میں بھی مسلمان ہوں۔ لیکن ہوا کیا ہے؟ اس نے جواب دیا، جسے میں مار رہا ہوں اسے میں نے اپنے ہاتھ سے کچھ ایسی چیزیں پانی میں بہاتے پایا ہے جس میں ہمارے دیوی دیوتاؤں کی تصویریں تھیں۔ اس نے نہ تو انھیں چوما اور نہ ہی پورا احترام دیا۔ یہ ہمارے دیوتاؤں کا ” گھور اپمان” ہے۔اس نے زور دے کر کہا کہ اس مسلمان کی اسی حرکت نے مجھے آگ بگولا کردیا ہے۔۔۔ اس نے مزید وضاحت کی کہ یہ ہمارے دھرم کی سخت اہانت ہے جسے اب ہم مزید برداشت نہیں کرسکتے اور ان مسلمانوں کو اپنے ہر عمل سے ہمارے دھرم کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ضروری نہیں کہ اگر تمہاری کوئی مذہبی علامت جس قدر تمہارے لیے قابل احترام ہو وہ اسی قدر دوسرے مذہب والوں کے لیے بھی قابل احترام ہو، یا جن مذہبی عملیات کا کرنا تمہارے لیے ضروری ہے اسے تم دوسروں کو بھی زبردستی کرنے پر مجبور کرو۔۔ ہوسکتا اس کا یہ عمل ایک معمول کی بات ہو جسے دوسروں کے بھڑکانے کی وجہ سے تم اپنے مذہب کی اہانت سمجھ رہے ہو۔
بہرحال اس کے بعد میں نے اس سے کیا کچھ کہا وہ پوری طرح مجھے یاد نہیں، لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ مجھے یاد ہے۔ اس کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ میری مداخلت کے بعد اس جارح انسان کا ہاتھ دوبارہ اس شخص پر نہیں اٹھ سکا۔ اس اثنا میں وہ مظلوم مسلمان موقع غنیمت پاکر منظر سے غائب ہوگیا، اور میں اس بستی میں تنہا رہ گیا لیکن میں انجام سے بے پروا اور بغیر کسی گھبراہٹ کے وہاں برابر ٹھرا رہتا ہوں۔ وہ ہندو بھائی تھوڑی دیر میری بات سننے کے بعد اپنے گھر میں چلا جاتا ہے، جب کہ میں اسے مزید سمجھانا اور ملک میں پنپ رہے حالات کے پیچھے کے اصل حقائق اور اس کے بھیانک نتائج کی یاد دہانی کرنا چاہتا ہوں، مگر میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ اب میرے سامنے زیادہ دیر رہنے سے گریز کر رہا ہے۔ اس کی اس نفسیات کو محسوس کرنے کے باوجود میں اسے باہر آنے کے لیے یہ کہ کر پکارتا ہوں کہ تم کہاں چلے گئے، میرے پاس آؤ میں تم سے اطمئنان سے اس مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہوں، پر وہ خود کو مجھ سے مزید پردے کی آڑ میں کر لیتا ہے۔ جب میں نے اس کے دروازے پر کھڑے ہوکر با اصرار اسے باہر آنے اور مجھ سے بات کرنے کی دعوت دی تو وہ تھوڑی دیر کے لیے باہر آیا لیکن جلد ہی دوبارہ اندر چلا گیا۔جب میں نے یہ دیکھا کہ وہ اب بھی بہت زیادہ گھلنے ملنے اور مجھ سے کھل کر بات کرنے سے گریزاں ہے تو میں نے بھی چند لمحے وہاں ٹھرنے کے بعد آس پاس کے گھروں کے باہر موجود چند افراد پر متجسسانہ نظر ڈالتے ہوئے اپنی راہ لی۔
*پس خواب*
میرے نزدیک یہ خواب اس ملک میں مسلمانوں کے حال کا عکاس اور ان کے مستقبل کا آئینہ ہے۔ اس خواب کے واسطہ سے مجھے اور میرے جیسے لوگوں کو ان کی جو ذمہ داری یاد دلائی گئی ہے اس سے بار بار دل میں گہرائی تک سوئیاں چبھ رہی ہیں اور سوزش دل پورے وجود پر مسلط ہے۔ اس خواب نے میرے اپنے ملک کا جو نقشہ میرے سامنے پیش کیا ہے وہ وہی ہے جس کا اب ہم یہاں آئے دن عالم بیداری میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس میں میری اپنی قوم کی جو ڈری سہمی تصویر اور قابل رحم حالت نظر آرہی ہے اس میں اس کے مستقبل کا چہرہ ان گنت زخموں اور گہری خراشوں سے پر دکھائی دے رہا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عالم خواب اور عالم بیداری کی تصویروں کو جب میں نے ایک ساتھ سامنے رکھا تو دونوں ایک دوسرے سے حد درجہ مماثل نظر آئیں۔ دونوں میں ایک قوم (یا اس کی موجودہ قیادت) یہاں کی دوسری قوموں پر غالب و مقتدر ہی نہیں فرعون بن کر رہنا چاہتی ہے اور وہ خصوصا یہاں کی مسلم اقلیت کو پوری طرح مغلوب و مقہور ہی نہیں ذلیل اور غلام بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔ یہی اس خواب کا سب سے تشویشناک پہلو ہے، اتنا تشویشناک کہ اگر ہم بالکل ہی بے حس نہ ہوں تو وہ ہم سے ہماری رات کی نیند اور دن کا چین چھین لے۔ مگر نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف اس صورت حال کے حوالے سے بے شمار سوالات ہمارے سامنے منھ کھولے کھڑے ہیں تو دوسری طرف ہم ننگی حقیقتوں کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے ان کا جواب دینے سے گریزاں ہیں۔
اس خواب کے ہر پہلو کی تعبیر اتنی واضح اور چشم کشا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ آپ لوگوں کے سامنے اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت ہے۔ ہاں اس موقع پر بس اتنی یاد دہانی ضروری محسوس ہورہی ہے کہ اس ملک میں فسطائی عناصر کا بڑھتا غلبہ اہل ملک کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے اور اس غلبے کے خلاف صرف ایک بے خوف عوامی مزاحمت ہی ہمیں مستقبل میں اس کے خطرناک نتائج سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں