وہ علامہ اور مفسر قرآن کے ساتھ ہی ساتھ اردو ادب کے شاہکار بھی تھے
ڈاکٹر زاھد شاہ
امام العصر علامہ سید ابوالاعلی مودودی
یوم وفات سید مودودی:
22 ستمبر 1979
(1) سید ابوالاعلی مودودیؒ سید ابوالاعلٰی مودودی25 ستمبر 1903ء بمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔
آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔
1914ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اورنگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہو گئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔
اس زمانے میں دارالعلوم کے صدر مولانا حمید الدین فراہی تھے جو مولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے۔ تاہم والد کے انتقال کے باعث وہ دارالعلوم میں صرف چھ ماہ ہی تعلیم حاصل کر سکے۔ ۔ باقی علوم وفنون خاص کر دورہ احادیث پرائیویٹ طور اساتذہ سے کیا۔مولانا مودودیؒ کے چند مشہور اساتذہ میں سے ایک مولانا عبدالسلام نیازیؒ تھے جس سے عربی زبان کی تعلیم حاصل کی۔ اپنے تبحر علمی اور درویشی کی وجہ سے وہ علمائے سلف کی یادگار تھے۔ ان سے عربی صرف و نحو ، معقولات اور معانی اور بلاغت کا درس لیا۔ نیازی رح بہت کم لوگوں کو پڑھاتے تھے اور صرف انہی کو شاگردی میں قبول کرتے تھے جنہیں واقعی پڑھنے کا شوق ہوتا تھا۔ سید مودودیؒ کو وہ نماز فجر سے پہلے پڑھاتے۔ سردی کے دنوں میں وہ علی الصباح نیازی صاحب کے ہاں پہنچ جاتے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ استاد کا موڈ (یا مزاج) اجازت نہ دیتا ، وہ معذرت کردیتے اور سید مودودیؒ چپکے سے ٹھٹھرتے واپس آجاتے۔
شریف اللّٰہ رح سے تفسیر بیضاوی، ہدایہ (فقہ کی مشہور کتاب) اور مطول (علم معانی و بلاغت) پڑھیں۔ انہیں سے ترمذی اور موطا سبقاً سبقاً مکمل کی۔ 22 جمادی الثانی 1344ھ (12 جنوری 1926) کو 22 برس کی عمر میں مولانا شریف اللّٰہ خان مدرس دارالعلوم فتح پوری دہلی سے
” علوم عقلیہ و ادبیہ و بلاغت” اور "علوم اصلیہ و فرغیہ” میں سند فراغت حاصل کی۔
حدیث، فقہ اور ادب کا درس مولانااشفاق الرحمٰن کاندھلویؒ سے لیا۔ اور 1927ء میں (مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری دہلی) میں مولانا اشفاق الرحمٰن کاندھلویؒ سے حدیث ،فقہ اور ادب میں سند فراغت اور تدریس حاصل کی۔ جبکہ اسی مدرسے میں اسی استاد سے اگلے سال 1928ء میں جامعہ ترمذی اور موطا امام مالک کے سمع و قرآت کی تکمیل کے بعد سند فراغت حاصل کی۔
(2) چونکہ سید مودودی لکھنے کی خداداد قابلیت کے حامل تھے اس لیے انہوں نے قلم کے ذریعے اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے اور عملی زندگی کا اغاز ایک صحافی کی حیثیت سے کی۔ اور متعدد اخبارات میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا جن میں اخبار "مدینہ” بجنور (اتر پردیش)، "تاج” جبل پور اور جمعیت علمائے ہند کا روزنامہ "الجمعیت” دہلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔
1925ء میں جب جمعیت علمائے ہند نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا تو سید مودودی نے بطور احتجاج اخبار”الجمعیۃ” کی ادارت چھوڑ دی۔
(3) جس زمانے میں سید مودودی”الجمعیۃ” کے مدیر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کی جس پر کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کردیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہوگیا۔ ہندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور علانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔
انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس وقت سید مودودی کی عمر صرف 24 برس تھی۔
اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
” اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے “۔۔۔۔اس کتاب میں جھاد کے قوانین واصول کے علاوہ اسلامی جہاد اور دیگر مذاھب کے قوانین جنگ کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
(4) “الجمعیۃ” کی ادارت اور اخبار نویسی چھوڑکر سید مودودی حیدرآباد دکن چلے گئے۔ جہاں اپنے قیام کے زمانے میں انہوں نے مختلف کتابیں لکھیں، اور 1932ء میں حیدرآباد سے رسالہ”ترجمان القرآن” جاری کیا۔
1935ء میں آپ نے "پردہ” کے نام سے اسلامی پردے کی حمایت میں ایک کتاب تحریر کی جس کا مقصد یورپ سے مرعوب ہوکر اسلامی پردے پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا تھا۔ اس کے علاوہ "تنقیحات” اور”تفہیمات” کے مضامین لکھے جن کے ذریعے انہوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے فرنگی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔
(5) سید مودودی نے ترجمان القرآن کے ذریعے ایک پابندِ اسلام جماعت کے قیام کی تجویز پیش کی اور اس سلسلے میں ترجمان القرآن میں مضامین بھی شائع کیے۔ جو لوگ اس تجویز سے اتفاق رکھتے تھے وہ 26 اگست 1941ء کو لاہور میں جمع ہوئے اور "جماعت اسلامی” قائم کی گئی۔ جس وقت جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس میں پورے ہندوستان میں سے صرف 75 آدمی شامل ہوئے تھے۔ اس اجتماع میں سید مودودی کو جماعت کا سربراہ منتخب کیاگیا۔
تقسیم ہند کے بعد سید مودودی پاکستان چلےگئے۔ اکتوبر 1948ء میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے پر آپ گرفتار ہو گئے۔ گرفتاری سے قبل جماعت کے اخبارات "کوثر”، جہان نو اور روزنامہ "تسنیم” بھی بند کردیے گئے۔
سید مودودی کو اسلامی نظام کا مطالبہ اٹھانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ قرارداد مقاصد کی منظوری سے قبل اس کا متن بھی مودودی کو ملتان جیل میں دکھایا گیا تھا۔ انہیں 20 ماہ بعد 1950ء میں رہائی ملی۔
اپنی پہلی قید و بند کے دوران انہوں نے "مسئلہ ملکیت زمین” مرتب کی، "تفہیم القرآن” کامقدمہ لکھا، حدیث کی کتاب "ابو داؤد” کا انڈکس تیارکیا، کتاب "سود” اور "اسلام اور جدید معاشی نظریات” مکمل کیں۔
1953ء میں سید مودودی نے "قادیانی مسئلہ” کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب تحریر کی جس پر انہیں گرفتار کرلیا گیا اور پھرفوجی عدالت کے ذریعے انہیں یہ کتابچہ لکھنے کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنادیا۔ جس پر پوری دنیا سراپا احتجاج ہوئی۔اخر بیرونی دباؤ پر یہ سزا عمر قید میں بدلی ۔کافی جیل کاٹنے کے بعد عدالت نے رہا کیا۔
31اکتوبر 1972ء کو جماعت کی امارت سے سبکدوش ہوئے۔اس طرح 31سال امیر رہے۔26جون 1974کو منصورہ میں مرکز اور مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔
(6) سید مودودیؒ نے اسلام وشریعت کے اکثر موضوعات پر لکھا، تحقیق کی اور ہر میدان میں انسانوں کی راہنمائی کی۔133سے زائد کتابیں لکھی۔جس میں 102کتابیں ہیں اور 31رسالے۔55 اپ نے خود تصنیف کی جبکہ 78کتابوں کو بیانات، تقاریر، انٹریوز وغیرہ سے مرتب کی گئی ۔دنیا کی 75زبانوں سے زائد اس کے ترجمے کیے گئے ۔تفہم القران 30سال 4ماہ میں مکمل کیا۔جس میں نہ صرف قران مجید کا مشن و پیغام کو اردوزبان میں پیش کیا ہے بلکہ عام تعلیم یافتہ کی ذہن کےسوالات، خدشات، اورشبہات کو بھی اڈریس کیا ہے۔ سید مودودیؒ نے اپنے کتابوں میں اسلام کو نہ صرف عام فہم بنایا بلکہ انسانیت کی فلاح کا ضامن کے طور پیش کیا۔شرعی احکام کو جدید دلائل کےساتھ پیش کیے۔کمیونزم، سوشلزم نشلزم، الحاد اور دیگر باطل نظریات کے مقابلے میں اسلام کو مدلل طور پیش کیا۔جدید علم الکلام کی بنیاد رکھی۔ 22ستمبر 1979کو وفات پائی۔