
مضامین و مقالات
یہودیوں کی تاریخ اسرائیل میں قیام سے لیکر جلاوطنی تک!
ریاض فردوسی۔9968012976
جدید اسرائیلی سرزمین کا قدیم نام کنعان تھا۔قرآن مجید میں اس خطہ کو ارض مقدس کہا گیا ہے اور بائبل میں اسے Promised Land یعنی سرزمین مدعو کہا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم سے اپنے آبائ وطن عراق سے ہجرت کرکے کنعان میں مقیم ہوۓ تھے اور اسی وقت اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو یہ بشارت دی کہ اس سرزمین کو ان کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کے اولاد کو عطا کیا جائے گا۔
جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کنعان آۓ تھے اس وقت Cannanites یہاں کے مقامی باشندے تھے اور وہ لوگ بت پرست تھے۔حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے اور ہر ایک بیٹا سے ایک قبیلہ وجود پزیر ہوا۔
اس طرح کل بارہ قبیلے کا جنم ہوا اور ان قبیلوں سے جو اولادیں پیدا ہوئ،انہیں بنی اسرائیل کہا گیا۔جب ملک کنعان میں قحط پڑا اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام مع اپنے بیٹے و اہل عیال کنعان سے مصر ہجرت کر گۓ،جہاں ان کے لخت جگر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین اور بھایئوں کا پرزور استقبال کیا اور پھر سرزمین مصر میں پورا خاندان بس گۓ۔
کتاب خروج کے مطابق بنی اسرائیل مصر میں 430 سالوں تک سکونت پزیر تھے۔اس دوران مصر میں ایک ایسا فرعون گزرا جو بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کرتا تھا اور بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا۔پھر اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی۔فرعون اور اسکے لشکر بحر احمر میں غرق ہوۓ اور اللہ تعالی کے معجزہ سے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل سمندر کو پار کیے اور صحرائے سینا میں داخل ہوۓ۔اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم لوگ ارض مقدسہ میں داخل ہو اور وہاں کے لوگوں سے جہاد کرو۔یہ زمین اللہ تعالی نے تم لوگوں کے قسمت میں لکھ دیا ہے۔ لیکن بنی اسرائیل نے جواب میں یہ کہا اے موسیٰ وہاں ایک زبردست قوم ہےاور ہم ہرگز وہاں نہ جائیں گے یہاں تک کہ وہ نکل جاویں۔اگر وہ نکل جاویں گے اس میں سے تو ہم ضرور داخل ہونگے۔آگے ان لوگوں نے یہاں تک کہا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز نہ جاویں گے ساری عمر جب تک وہ رہیں گے اس میں سو تو جا اور تیرا رب اور تم دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔اس کے بعد اللہ تعالی نے بنی اسرائیل پر چالیس سال تک سرزمین فلسطین حرام کر دی( سورہ المائدة، آیت 26-21 کے مطابق)۔
چالیس سال کے اندر جن لوگوں نے جہاد کرنے سے انکار کیا تھا وہ سب انتقال کر گۓ اور پھر انکے بال بچوں کو لیکر یوشع بن نون نے جہاد کیا اور سرزمین فلسطین کو فتح کیا اور وہاں جا کر آباد ہوۓ۔
وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل میں پیغمبر شموییل علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ان کے زمانہ میں فلسطینیوں ( Philistines) نے بنی اسرائیل کو جنگ میں شکست دی۔پیغمبر شموییل کے زمانہ میں فلسطین بحر روم
( Mediterranean Sea) کے مشرقی ساحل پر واقع اسرائیل کا ایک پڑوسی ملک تھا۔فلسطین ایک غیر یہودی قوم تھی جو Crete island سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہو گۓ تھے۔ انکے پانچ مشہور شہر تھے۔ Ashkelon, Ashdod, Gaza, Gath اور Ekron بنی اسرائیل میں ایک صندوق تھا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے برکات تھے۔
بنی اسرائیل اس صندوق کو لڑائی کے میدان میں آگے رکھتے اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے فتح دیتے۔فلسطینوں نے اس صندوق کو اپنے ساتھ لے گیے لیکن وہ لوگ جہاں صندوق کو رکھتے وہیں وباء اور بلاء آئی پانچ شہر ویران ہوگئے۔بالآخر فلسطینیوں نے وہ صندوق بنی اسرائیل کو واپس لوٹا دیا۔اس کے بعد بنی اسرائیل نے پیغمبر شموییل علیہ السلام کی قیادت میں فلسطینیوں سے جہاد کیا اور فلسطینیوں کو شکست ہوئی۔اس کے بعد اسرائیلیوں نے پیغمبر شموییل علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دیجیے جس طرح ان کے پڑوسی ممالک میں بادشاہ ہیں تاکہ ہم لوگ بادشاہ کی قیادت میں دوسرے قوموں کے خلاف جہاد کر سکیں۔اللہ تعالی نے اسرائیلیوں کے اس مطالبہ کو پورا کیا اور طالوت (Saul) نامی شخص کو بادشاہ مقرر کیا۔
اس طرح طالوت بنی اسرائیل کا پہلا بادشاہ ہوا اور اسرائیل میں بادشاہت کی ابتداء ہوئ۔ان کی قیادت میں اسرائیلوں نے ایک بار پھر فلسطینیوں کو شکست دی۔طالوت کے بعد پیغمبر شموییل نے اللہ تعالی کے حکم سے داؤد علیہ السلام کو اسرائیل کا بادشاہ مقرر کیا۔وہ بیت اللحم کو Jesse کے اٹھ لڑکوں میں سب سے چھوٹے لڑکے تھے اور تقرری سے پہلے وہ چرواہا تھے۔طالوت کے عہد بادشاہت میں داؤد علیہ السلام اپنے بچپن میں فلسطینی فوج کے سپہ سالار (جالوت، Goliath) جو اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھتا تھا ایک جنگ میں ایک غلیل سے پتھر چلا کر ایسا مارا کے سر پر چوٹ لگنے سے ہی وہ فوت ہو گیا اور پھر اس کا سر قلم کر دیا۔
پیغمبر داؤد علیہ السلام کا عہد خلافت اسرایلیوں کے لیے سنہرا دور (Golden Age)تھا۔انہوں نے تمام بارہ قبائل کو متحد کیا اور ایک متحدہ امارت اسرائیل ( United Kingdom of Israel) کی بنیاد ڈالی اور بادشاہ مقرر ہوئے۔انہوں نے اسرائیل کے گردوپیش میں جتنی قوتیں تھیں سبھوں کو شکست دی۔ان کا سلطنت اسرائیل کےجنوب میں Negev Desert تک، شمال میں لبنان اور ملک شام تک اور مشرق میں اردن تک وسعت کر چکا تھا۔آج کے یہودی اسی سنہرے دور کے واپسی کا خواب دیکھتے ہیں اور ان کا ایمان ہے ایک مسیحا آۓ گا جو اس دور کو جسے وہ Messianic age کہتے ہیں دوبارہ واپس لانے گا۔داؤد علیہ السلام کے بعد ان کے صاحب زادے سلیمان علیہ السلام متحدہ اسرائیل کا بادشاہ ہوۓ۔ان کے دور کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ ہیکل سلیمانی جسے First Temple کہتے ہیں کی تعمیر ہوئ۔
سلیمان علیہ السلام کے وفات کے بعد ہی سے بنی اسرائیل کے زوال کا آغاز ہوا جب اسرائیلیوں نے سلیمان علیہ السلام کے صاحب زادے Rehoboam کے خلاف خروج کیا۔بارہ قبائل میں سے یہودہ اور بنیامین کے قبائل کو چھوڑ کر باقی دس قبائل نے Jeroboam نامی شخص کو اپنا بادشاہ مقرر کیا۔اس طرح داود اور سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں جو متحدہ اسرائیل کی مملکت تھی وہ اب دو حصوں میں تقسیم ہو گئ۔ شمال میں دس قبائل پر مشتمل مملکت اسرائیل ( Kingdom of Israel) جس کا دارالخلافہ Samaria تھا اور دوسرا اسرائیل کے جنوب میں دو قبائل قبیلہ بنیامین ( Tribe of Benjamin) اور قبیلہ یہودہ ( Tribe of Judah) پر مشتمل مملکت یہودہ ( Kingdom of Judah) جس کا دارالخلافہ یروشلم (Jerusalem ) تھا۔بنی اسرائیل اور ان کے بادشاہ خدا کے ساتھ شرک کرنے لگے اور دوسرے معبودوں کی پرستش بھی شروع کر دیۓ۔اس لئے اللہ تعالی نے اسرائیلیوں کو سزا دینے کا سلسلہ شروع کیا۔سب سے پہلے Shishak جو مصر کا بادشاہ ( Egyptian Pharaoh) تھا اس نے Rehoboam جو Judah کا بادشاہ تھا کے دوران حکومت میں سال 926 ق م میں سرزمین Judah پر حملہ کیا۔وہ ہیکل سلیمانی پر بھی حملہ آور ہوا اور اسکے سارے خزانے اور شاہی خزانے کو لوٹ کر لے گیا۔یہودیوں کی اپنی حکومت قائم ہونے کے بعد ان پر یہ پہلا بیرونی طاقت کا حملہ تھا۔دونوں ہی مملکت میں اللہ تعالی پے در پے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔انبیاء بادشاہوں اور عوام سبھی کو دعوت دیتے رہے کہ تم لوگ خدا کی طرف لوٹ آو اور دوسرے معبودوں کی پرستش نہ کرو اور اللہ تعالی کے عنقریب عذاب سے ڈراتے بھی رہے لیکن ان لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
سال 734 ق م میں آسور کے بادشاہ Tiglath Pileser نے شمالی مشرقی اسرائیل کے تین شہر Gilead, Galilee اور Naphtali کو گھوڑوں سے روند ڈالا اور اور ان تین شہروں کو ویران کر دیا۔اس کے بعد آشور کا بادشاہ Shalmaneser شالمانیسر پنچم ( 726-721) سال 722 ق م میں اسرائیل کے بادشاہ Hoshea کے دور حکومت میں Samaria پر حملہ آور ہوا اور تین سالوں تک دارالخلافہ کو محصور رکھا اور تمام یہودیوں کو آسور ملک ( Assyria) میں جلاوطن کر دیا اور اسور ملک کے باشندوں کو لاکر اسرائیل میں آباد کیا۔اس طرح شمالی مملکت اسرائیل ( North Kingdom of Israel) کا خاتمہ ہوا اور اب صرف جنوبی مملکت یہودہ قائم رہی۔
سال 701 میں آسور کے بادشاہ Sennacherib نے شہر یہودہ پر حملہ کیا اور شہر کا محاصرہ کیا۔یہودہ کا بادشاہ Hezekiah نے شاہی خزانے اور ہیکل سلیمانی کے دروازوں پر لگے ہوئے سونے کو نکال کر آسور کے بادشاہ کو خراج دیا۔
اسور کے زوال کے بعد Babylonian power کا عروج ہوا۔ سال 597 BC میں بابل کا بادشاہ Nebuchadnezzar بخت نصر یروشلم کا محاصرہ کیا اور یہودہ کے بادشاہ Jehoiachin اور رانی ماں،شرفاء،فنکار،حتی کہ تمام لوگوں کو بابل جلاوطن کر دیا اور Zedekiah نامی شخص کو یہودہ کے تخت پر بیٹھا دیا لیکن سال 586 ق م میں جب اس نے بغاوت کی تو Nebuchadnezzar نے یروشلم پر حملہ کیا،اس نے باغی بادشاہ اور پوری یہودی عوام کو بابل جلاوطن کر دیا۔
اس نے Zedekiah کے بچوں کو اس کے سامنے قتلِ کر ڈالا اور خود بادشاہ کو اندھا کر دیا،اس نے ہیکل سلیمانی،شاہی محلات، ہر خاص عمارتوں اور یروشلم کے تمام گھروں کو جلا ڈالا۔ یروشلم کے دیواروں کو ڈھا دیا گیا۔یروشلم کے تمام باشندوں کو بابل جلاوطن کر دیا گیا اس طرح سال 586 ق م میں مملکت یہودہ ( Southern Kingdom of Judah) کا خاتمہ ہو گیا اور یہودیوں کے پاس نہ اپنی کوئی زمین بچی اور نہ ہی حکومت رہی۔اب وہ دوسرے قوموں کے غلام بن گئے۔
یہودیوں کی جلاوطنی کی مدت ( Period of Exile) تقریباً پچاس سالوں تک تھی۔خدا کی طرف سے یہودیوں کے لیے ایک رحم دل بادشاہ کا عروج ہوا جسے Cyrus the Great کہا جاتا ہے۔سال 539 ق م میں بابل کا زوال ( Fall of Babylon) ہوتا ہے۔بابل کی فتح کے بعد شاہ ایران Cyrus نے Edict of Restoration جاری کیا جس کے تحت اس نے یہودیوں کو اجازت دی کہ وہ اپنے وطن Judah لوٹ جاۓ اور دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنے کی بھی اجازت دی۔بابل سے اسرائیل واپس آنے والے سبھی یہودی یعقوب علیہ السلام کے بیٹے یہودہ (Judah) اور بنیامین( Benjamin) کی اولادیں تھیں۔باقی دس قبائل جنکو Assyria جلاوطن کر دیا گیا تھا اس کے واپسی کا کوئی ذکر بائبل میں نہیں ملتا۔بابل سے لوٹنے والے یہودیوں میں سے ایک پیغمبر بھی تھے جنہیں عزیر علیہ السلام (Ezra) کہا جاتا ہے۔واپسی کے بعد یہودیوں نے ہیکل سلیمانی کے بنیاد پر دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جو Second Temple کہلایا۔
عیسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل میں مبعوث ہوۓ تو بنی اسرائیلیوں نے ان کے دین کو مسترد کر دیا اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگا کر یہودہ کے گورنر Pontius Pilate سے موت کا فرمان جاری کروا لیا۔بنی اسرائیل اس سے پہلے بھی انبیاء کا قتلِ کر چکے تھے۔بہرکیف ان کے عقیدہ کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دے دیا گیا۔اللہ تعالی کی سنت رہی ہے کہ جب کوئی قوم رسول پر ایمان نہیں لاتی تو اسے دنیا میں سزا دی جاتی ہے۔سال 70 AD میں روما سلطنت کے سپہ سالار Titus نے اسرائیل پر فوج کشی کی اور یروشلم کا محاصرہ کیا۔مؤرخ Josephus کے مطابق قریب دس لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا اور ہیکل سلیمانی کو مسمار کیا گیا۔ستانوے ہزار یہودیوں کو غلام بنایا گیا اور قریب چالیس ہزار یہودی بچ گئے جنہیں رومن شہنشاہ Vespasian نے حکم دیا کہ وہ جہاں چاہے سرزمین اسرائیل سے باہر چلے جاۓ۔قریب سات سو زنجیر میں بندھے یہودی قیدیوں کو روم شہر کے گلیوں میں گھمایا گیا۔
ساٹھ سال کے بعد 132 میں جو یہودی بچ گئے تھے ان کا ایک گروہ Simon bar Kokhba کی قیادت میں رومن حکمران Hadrian کے خلاف ایک مسلح بغاوت کی جو قریب چار سالوں 136 تک جاری تھی۔اس خروج میں Simon کے ساتھ بےشمار یہودیوں کو قتل کیا گیا،بہتوں کو غلام بنایا گیا۔اس بغاوت کی فوری وجہ یہ تھی کہ شہنشاہ Hadrian نے یروشلم کے کھنڈروں پر ایک نیا شہر Aelia Capitolina تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور Temple mount پر ایک عبادت گاہ جس میں رومن دیوتا Jupiter کی مورتی رکھی جائے گی بنانے کا بھی فیصلہ کیا۔اسی فیصلے کے خلاف یہودیوں نے بغاوت کی۔70 AD اور Bar Kokhba revolt کے واقعات کے بعد پوری یہودی قوم اپنے گھر سے دور دنیا کے مختلف ملکوں میں منتقل اور منتشر ہو گئ اور جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے لگی۔یہودیوں کے اس جلاوطنی کی زندگی کو Diaspora کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہودیوں پر یہ عذاب کا سلسلہ قدیم دور سے جو چلا آ رہا ہے یہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہو رہا ہے۔ارشادِ باری تعالی ہے : اور اس وقت کو یاد کرو جب خبر دی تھی تیرے رب نے کہ ضرور بھیجتا رہے گا یہود پر قیامت کے دن تک ایسے شخص کو کہ دیا کرے ان کو برا عذاب، بیشک تیرا رب جلد عذاب کرنے والا ہے، اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔(سورۃ الأعراف آیت نمبر 167) یعنی اللہ کی طرف سے پختہ اعلان کردیا گیا تھا کہ یہود اگر احکام تورات پر عمل کرنا چھوڑ دیں گے تو حق تعالیٰ قرب قیامت تک وقتاً فوقتاً ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو برے عذاب (محکومانہ زندگی) میں مبتلا رکھیں گے۔(معاذ اللہ ہم مسلمان بھی اسی گناہ کا ارتکاب کرکے اللہ کے عذاب کے حق دار ہیں)چناچہ قوم یہود کبھی یونانی اور کلدانی بادشاہوں کے زیر حکومت رہی۔کبھی ” بخت نصر ” وغیرہ کے شدائد کا تختہ مشق بنی۔آخر میں نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک تک مجوسیوں کی باجگذار رہی۔پھر مسلمان حکمرانوں کو اللہ نے ان پر مسلط فرما دیا۔جہاں کہیں رہے اکثر ملوک و حکام کی طرف سے سخت ذلت اور خطرناک تکلیفیں اٹھاتے رہے۔
آخر میں !
اس وقت ایک طرف غزہ کے ہر جانب اسرائیلی وحشتناک بمباری جاری ہے،اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے الاہلی عرب ہسپتال پر فضائی حملے میں 7000 سے زائد مسلمان شہید ہو گئے ہیں،جن میں زیادہ تر مریض،نرس اور ڈاکٹر تھے۔اب تک 25000 سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہو چکاہے۔غزہ کی پٹی روئے زمین پر سب سے گنجان آباد اور غربت زدہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس چھوٹی سی پٹی کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور خود فلسطینی بھی مسلمانوں کے لۓ دنیا کی سب سے بڑی کُھلی جیل قرار دیتے ہیں۔
اور دوسری جانب پاکستان کے ہر چینل پر افغانستان سے میچ ہارنے کے بارے میں تجزیئے،خبریں،شو اور "سوگ” کی کیفیت ہے۔
اللہ کے واسطے اب تو جاگ جاؤ! اے بےحس،بےضمیر،بےشعور اور بےشرم مسلمانوں۔(الا ماشاء اللہ)
میرے بھائیوں یاد رکھو۔فلسطین نہیں،عالم انسانیت کا ضمیر مرا ہے۔
تمام مسلم حکمرانوں اور خاص کر بزدل اور بے حس سعودی فرمانروا کے لۓ ایک پیغام ہے۔
جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپر آپ کا ہے
آگ کے پیچھے تیز ہوا ھے آگے مقدر آپ کا ہے
اسکے قتل پہ میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پہ آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے