
آرزوئے سحر عنوان: سندھ بنام چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب
تحریر: انشال راؤ
ترقی یافتہ قوموں کی رفعتوں کا راز فقط میرٹ ہے جس کا نفاذ سندھ میں دیوانے کے خواب سے زیادہ نہیں، یہ عین حقیقت ہے میرٹ کے بغیر جرائم کا خاتمہ، کرپشن کی روک تھام، قانونی بالادستی محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ بات میرٹ کی ہورہی ہے تو کوئی بتائے کہ جب ریاست کی دلچسپی نہ ہو تو اس کا نفاذ کیونکر ممکن ہے؟ فخر قوم آرمی چیف صاحب ملکی ترقی و استحکام کے لیے کوشاں و فکرمند ہیں تو دوسری جانب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب قوم کے ہر فرد کو قانون و انصاف کی فراہمی کا بیڑہ اٹھائے ہوے ہیں مگر کیا اس کا حصول میرٹ کے بغیر ممکن ہے؟ ہرگز ہرگز نہیں۔
زمانہ جاہلیت کی قومیں اسی لیے تباہ تھیں کہ ان کے ہاں کلیہ و قانون کے تحت میرٹ کا نظام نہ تھا۔ امراء کی اقرباپروری ریاستی نظام پر قابض تھی۔ اہم عہدوں پر نااہل سفارشی لوگ تعینات ہوجاتے تھے۔ اکیسویں صدی میں بھی اس کا عکس سندھ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ عین حقیقت ہے سندھ پبلک سروس کمیشن SPSC سیاسی شخصیات، وڈیروں، اعلیٰ عہدیداروں و بیوروکریٹس کے بچوں و رشتہ داروں اور ان کے منظور نظر افراد کو افسر منتخب کرنے کا ادارہ بن کر رہ گیا ہے جس کا طریقہ امتحان نہ صرف آئین و قانون کے منافی ہے بلکہ کلی طور پر مافیا کے شکنجہ میں ہے۔
امتحانی پرچہ بنانے کے لیے کسی بھی ویب سائٹ سے سوالات کاپی پیسٹ کرلیے جاتے ہیں جیسا کہ حالیہ ٹاؤن و میونسپل افسر کی بھرتی کے لیے Pak MCQS نامی ویب سائٹ سے پرچے تیار کیے گئے۔ سپریم کورٹ کے احکامات ہیں کہ امتحانی پرچہ 100 سوالات پہ مبنی ہونا چاہئے لیکن SPSC اس کے برخلاف ہر امتحانی پرچہ 50 سوالات تک محدود کرتا ہے۔ جوابی کاپیوں پر نہ کوئی سیریل نمبر ہوتا ہے نہ امیدوار کی تصویر اور نہ ہی رولنمبر درج ہوتا ہے ماضی میں یہ طریقہ کار کاپیاں تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں امتحانی نتائج کا اعلان گھنٹوں یا دنوں میں کردیا جاتا ہے لیکن SPSC تاخیری حربے استعمال کرتے ہوے مہینوں بعد نتائج کا اعلان کرتی ہے۔ نتائج میں صرف کامیاب امیدواروں کے رول نمبرز کی فہرست جاری کردی جاتی ہے جبکہ نہ امیدواروں کے نام ظاہر کیے جاتے ہیں نہ ہی حاصل کردہ نمبر۔ یہی وجہ ہے کہ کمیشن انتظامیہ بآسانی من پسند افراد منتخب کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے سندھ پبلک سروس کمیشن کے متعدد اسکینڈل سامنے آئے اور سینکڑوں درخواستیں حق و انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں میں دائر ہوئیں لیکن ان سب کے باوجود SPSC پر کوئی فرق نہ پڑا۔ ایک بار پھر میرٹ کی دھجیاں اڑا کر میونسپل آفیسر کے لیے ٹاپرز اور اہل امیدواران کو کھڈے لائن لگادیا گیا جبکہ سیاسی شخصیات کے بچے و رشتہ دار اور بہت بڑی تعداد ایسے امیدواروں کی منتخب کی ہے جو آٹھویں جماعت کے سلیبس پر مشتمل پرائمری ٹیچرز کے امتحان پاس نہیں کرپائے تھے۔ اس سب کو لیکر سوشل میڈیا و سندھی مین اسٹریم میڈیا پر طوفان بپا ہے پورا سندھ سراپہ احتجاج ہے کہ ووٹ کے ساتھ ساتھ میرٹ کو بھی عزت دو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ میں محکمہ بلدیات میں کئی دہائیوں سے سیاسی بنیاد پر محکمہ بلدیات میں افسران تعینات ہوتے رہے یہ پہلا موقع ہے کہ میونسپل افسران کی تعیناتی کمیشن کے زریعے کی گئی لیکن منتخب افراد میں سیاسی شخصیات کے بچے اور رشتہ دار یا ان کے منظور نظر افراد ہی نظر آئے۔ جس کے نتیجہ میں پڑھا لکھا نوجوان نہ صرف مایوس بلکہ نظریہ پاکستان سے بھی دور ہوتا جارہا ہے تو دوسری طرف نااہل افسران کی وجہ سے ادارے اور معاشرہ تباہی کے دہانے آپہنچا ہے۔
کے ٹی این نیوز پر اینکر پرسن اشفاق احمد اور معروف ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر رائے دی کہ شاید یہ ریاستی پالیسی ہے کہ سندھ وڈیروں جاگیرداروں کے تسلط میں جکڑا رہے اسی لیے اتنے شور اور اتنی پٹیشنوں کے باوجود سندھ میں میرٹ کی بحالی ایک خواب ہی رہ گئی، یہی سوچ سندھ کے پڑھے لکھے نوجوان کے زہن میں جگہ بنارہی ہے جوکہ پاکستان کی نظریاتی اساس کے لیے تباہ کن ہے اور سندھ پاکستان کا معاشی حب ہے جب تک سندھ سے کرپشن، امراء کی اقرباپروری، لاقانونیت کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک پاکستان کی ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ان سب کے خاتمہ کے لیے میرٹ کا نفاذ ضروری ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ سندھ کی عوام کی آواز سنیں اور سوموٹو ایکشن لے کر سندھ میں پھلتی پھولتی مایوسی کا خاتمہ فرمائیں۔