اسلامیات،افسانہ و غزلیات

فریضہ تبلیغ و دعوت اور داعی کے اوصاف

حضرت محمد ﷺ آخری رسول ہیں۔اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔اللہ کے رسول اب دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ان کا لایا ہوا دین بھی آخری دین ہے۔اب انسانوں تک اللہ کا دین کون پہنچائے گا۔یہ ذمہ داری آپ ﷺ نے اپنی امت پر ڈالی ہے۔اسلام تمام انسانوں کے لیے ہے۔لوگوں کی نجات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے راستہ پر چلیں۔جب لوگوں کو اللہ کا پیغام معلوم ہی نہ ہوگا تو چلیں گے کیسے؟اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے یہ حکم دیا کہ اگر تمہیں ایک آیت ہی معلوم ہو،اللہ کا ایک حکم ہی تمہیں یاد ہو تو اسے ان لوگوں تک پہنچادو جن تک وہ حکم نہیں پہنچا ہے۔آپ ؐ نے فرمایا:بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْاٰیَۃ۔میری طرف سے لوگوں کو پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔ (بخاری)

قرآن پاک میں بحیثیت امت ہمیں اسی فریضہ کی تعلیم دی گئی ہے کہ ہم لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائیں اور برائیوں سے روکیں اور اسلام سے بڑی بھلائی دنیا میں کوئی نہیں جس پر عمل کرکے انسان اپنی دنیا اور آخرت دونوں بناسکتے ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے۔ کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ(آل عمران:۰۱۱)تم ایک ایسی امت ہو جس کو لوگوں کے لیے پیدا کیا گیا ہے تم بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔

تبلیغ کا یہ فریضہ جو اللہ اور اس کے رسول نے مسلمانوں پر عائد کیا ہے۔اس کا تقاضا ہے کہ ہر مسلمان انسانوں تک اللہ کا دین پہنچائے۔یہ پہنچانا اپنے عمل سے بھی ہے،اپنی زبان سے بھی،اپنے قلم سے بھی اور اب تو سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ہے۔

ہمارا عمل دین کے مطابق ہو۔ہم اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوں تو دوسرے دیکھ کر ہی اللہ کا حکم سمجھ لیں گے۔اگر اللہ نے ہمیں بولنے کی صلاحیت دی ہے تو ہم تقریر کے ذریعے اللہ کی بات بیان کریں گے۔کوئی ضروری نہیں کہ ہم بہت بڑے مقرر بنیں۔سیدھی سادھی زبان میں اللہ اور رسول کی بات بیان کریں۔اگر اللہ نے تحریرکی نعمت سے نوازا ہے تو مضامین لکھیں،کتابیں لکھیں تاکہ لوگ پڑھ کر علم حاصل کرلیں۔موجودہ وقت میں سوشل میڈیا کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔واٹس اپ اور یوٹیوب کے ذریعے اللہ کا دین پھیلایا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں دو باتیں ضرور سامنے رہیں اول یہ کہ جو بات پہنچائی جائے اس پر آپ خود بھی عمل کرتے ہوں،اس لیے کہ بے عمل کی بات میں اثر نہیں ہوتا۔دوسری  یہ کہ وہ بات درست ہو۔ایسا نہ ہو کہ سنی سنائی بات کہہ دی۔اگر کہیں اللہ اور رسول کے نام پر غلط بات پہنچادی تو سارا وبال کہنے اور پہنچانے والے پر آئے گا۔

نبی اکرمؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا، اللہ کی قسم،اللہ تعالیٰ تیرے ذریعہ سے ایک آدمی کو سیدھے راستہ پر چلنے کی توفیق دے تو یہ تیرے لیے بہتر ہے اس سے کہ تجھے سرخ اونٹ ملیں۔  (بخاریؓ) اس حدیث میں حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے اسلام کی طرف بلانے اور لوگوں کی اصلاح کرنے کی فضیلت کو تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔اگرچہ آپ ؐ نے یہ بات حضرت علیؓ سے فرمائی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سے لے کرآج تک بلکہ قیامت تک امت کا ہر فردحضور ؐ کے اس ارشاد کا مخاطب ہے۔تاکید کا زور دیکھئے کہ نبی اکرمؐ اللہ کی قسم کھاکر یہ بات فرماتے ہیں کہ اے علی ؓ تمہارے ذریعہ کسی ایک شخص کو سیدھا راستہ مل جانا تمہارے لیے سرخ اونٹوں کی دولت سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ عرب میں اس وقت سرخ اونٹ اعلیٰ قسم ہونے کی وجہ سے بڑی اہمیت رکھتے تھے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کودعوت اوراصلاح کا فریضہ انجام دینے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔دعوت کا مطلب ہے غیرمسلموں کو اسلام کی طرف بلانا اور اصلاح کا مطلب ہے مسلمانوں کے اعمال کی اصلاح کرنا یعنی انھیں نصیحت کرنا۔نبی ﷺ نے یہ حکم غزوہ ئ خیبر کے موقع پر دیا تھا۔جب آپ نے حضرت علی ؓ کو خیبر فتح کرنے کے لیے حکم دیا تھا اس وقت آپ ؐ نے فرمایا تھا کہ اے علی ؓ  تم پہلے انھیں اسلام کی دعوت دینا۔اگر ایک شخص بھی تمہاری دعوت پر اسلام لے آیا تو تمہارے لیے دنیا کے قیمتی مال سے زیادہ بہتر ہے۔دراصل ایک انسان جب سیدھا راستہ پاتا ہے،اپنے سچے مالک کے سامنے جھکتا ہے تو جہنم سے بچ جاتا ہے۔کسی انسان کو آگ میں جلنے سے بچانا اور وہ بھی دوزخ کی آگ سے بچانا اتنا بڑا عمل ہے کہ اس کے سامنے دنیا کی ساری دولت بے کار ہے۔جب ہدایت پانے والا جہنم سے بچایا جائے گا اور جنت میں داخل کیا جائے گا تو سوچیے جس کی وجہ سے ہدایت ملی ہے اس کو کتنا انعام اور اجر ملے گا۔

 کسی آدمی کا کسی کے ذریعہ ہدایت یافتہ ہوکر زندگی گزارنا۔دعوت دینے والے کے لیے مستقل صدقہ جاریہ بن جائے گا۔خیر اور بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والے ایسے ہی داعی اور مصلحین کے لیے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:الدال علی الخیر کفاعلہ خیر اور بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا بھلائی اور خیر کے کام انجام دینے والے کی طرح ہے۔ایک دوسری حدیث  میں اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں: مَنْ دَعَا اِلٰی ھُدیً کَانَ لَہٗ مِنَ الْاَجْرِ مِثَلَ اُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہٗ جس شخص نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا اس کو اس ہدایت پر عمل کرنے والے ہی کی طرح اجر ملے گا۔

قرآن و حدیث کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک داعی کوچند باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔

٭ دعوت صرف اللہ کے دین کی طرف ہو۔کسی مسلک اور فقہ کی طرف دعوت نہ ہو،کسی قبیلہ اور ذات برادری کی طرف نہ ہو۔کسی دنیاوی فائدے کی طرف نہ ہو بلکہ خالصتاً اللہ کی جانب ہو۔”آپ کہہ دیجئے میری راہ یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں۔“ (یوسف:۸۰۱)

٭ دعوت کا کام کرتے ہوئے داعی کا لب ولہجہ ترش اور تلخ نہ ہو بلکہ شیریں اور نرم ہو۔نبی اکرم ؐ نے فرمایا:”اللہ ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔(بخاریؓ)داعی خواہ کتنا بڑا عالم ہو،متقی ہو،اس کا لباس کتنا ہی قیمتی ہو اگر اس کے اندر نرمی نہیں ہے تو وہ دعوت کا کام نہیں کرسکتا۔اللہ نے پیغمبر کو ہدایت فرمائی۔”اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔ (طہ:۴۴)

٭داعی کو حکمت کے ساتھ دعوت کا کام کرنا چاہئے جس طرح ایک حکیم علاج کرتا ہے ٹھیک اسی طرح داعی کو دعوت دینا چاہیے۔فرمان باری ہے:”اپنے رب کے راستے کی طرف دانشمندی اور عمدہ نصیحت سے بلاؤ“(النحل:۵۲۱)

٭ دعوت سے مقصود رضائے الٰہی کا حصول ہو نہ کہ مال وجاہ کا حصول۔داعی کا مقصد بھی صرف اللہ کی خوشی ہو نہ کہ عوام میں شہرت،یا جماعت میں مقام و مرتبہ کا حصول۔”ِپھر بھی اگر تم اعراض ہی کئے جاؤ تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا میرا معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمہ ہے۔“ (یونس:۷۲)

٭ داعی کا ذاتی کیرکٹر اچھا ہو۔حسنِ عمل کی دولت سے مالا مال ہو۔زمانے کی اصلاح کرتے ہوئے اپنی ذات کو بھول نہ جاتا ہو۔”اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں۔“َ(حم السجدۃ:۳۳)”کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیہ کہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟“(البقرۃ:۴۴)

داعی کوہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ میرا کام حق بات کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے. ہدایت دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے. وہ جب تک نہ چاہے کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔قرآن میں نبیوں کی زبان سے کہلوایا گیا:”وَمَا عَلینَا اِلَّا البَلٰغْ المْبِینْاور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔“ (یس:۷۱)

 مخاطبین کی رعایت کرکے بات کی جائے. جو جس مقام کا حامل ہو اس سے اسی معیار کے مطابق بات کرے. سامنے والا اگر رشتے یا عمر میں بڑا ہو تو ادب کو ملحوظ رکھے۔نبی ﷺ نے فرمایا:”لوگوں کی معرفت کے مطابق ان سے گفتگو کرو (وگرنہ) کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی جائے۔“(بخاری)

 دعوت کی راہ میں تکلیفیں برداشت کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہئے. یہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا راستہ ہے.۔(حضرت لقمان ؑنے اپنے بیٹے سے کہا) اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آئے صبر کرنا (یقین مان) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔(لقمان:۱۷)اللہ ہمیں اپنے دین کا سچا اور مخلص داعی بنائے۔

   جھوٹ بولنا تو یوں بھی بڑا گناہ ہے۔جھوٹی بات پھیلانا بھی گناہ ہے۔کسی کا نام لے کر کوئی ایسی بات کہنا جو اس نے کہی نہ ہو یہ الزام تراشی بھی ہے اور جھوٹ بولنا بھی ہے۔اگر کوئی داعی جھوٹ بولے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ نبی اکرم ؐ نے فرمایا:”مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّا مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔جو شخص میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔(بخاریؓ)

 اسلام کی تما م ہدایات اور تعلیمات اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہیں اور دلوں پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ اس لیے جھوٹی سچی اور الم گلم چیزوں کو وقتی واہ واہی اور زبان کے چٹ خارے کے لیے ہرگز بیان نہ کیا جائے۔ موضوع اور من گھڑت باتوں کو حدیث کے حوالے سے بیان کرنے سے بچا جائے۔ اسی بات کو واضح کرنے کے لیے اللہ کے رسولؐ نے اس حدیث میں سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ کی طرف کسی بھی بات کی جھوٹی نسبت کرنے کا انجام اپناٹھکانا جہنم میں بنانے کی بات کہی ہے۔

اس قدر سخت دھمکی کے باوجود بھی آج ہمارے درمیان کم علم واعظین برسرمنبر موض وع اورمن گھڑت احادیث اور واقعات بیان کرنے سے نہیں چوکتے اور عوام ان کو درست سمجھ بیٹھتے ہیں یہ نہایت افسوس کا مقام ہے۔ ہونا تویہ چاہیے کہ براہ راست قرآن وحدیث کا علم حاصل کرکے ان کی تعلیمات کو عوام میں پھیلایا اور رائج کیا جائے۔ اپنی باتوں کو پراثر بنانے کے لیے غلط باتوں کو بیان کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔ ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ صحیح اور درست تعلیمات ہی دلوں میں اترتی ہیں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ دلوں کو کھول دیتا ہے اور سینوں میں نرمی پیدا کردیتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہی دلوں کی دنیا بدلنے والا ہے۔ اس لیے کسی بھی واعظ اور مقرر کو اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے قطعاً جھوٹے اور کمزور سہاروں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم پر صرف اس چیز کی ذمہ داری ہے کہ اللہ اور رسولؐ کی صحیح صحیح تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کردیں۔

ڈاکٹر سراج الدین ندوی

9897334419

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button