
علم میراث سہل ہے یا پیچیدہ
شکیل اشرف بہار ساکن دوبئی
گذشتہ دنوں وہاٹس اپ گروپ کے اپنے ایک پیغام میں ایک صاحب نے فرمایا
“وراثت سے متعلق نصوص قرآن کریم میں بالکل واضح ہیں، ان میں کوئی پیچیدگی نہیں اور نہ ہی کسی عالم کا کوئی اختلاف ہے، پھر بھی ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ بے ایمانی وراثت کی تقسیم میں ہوتی ہے، لڑکیوں کو توی کوئی دیتا ہی نہیں، امت کی تباہی کی ایک وجہ یہ بھی ہے”
میں اس موضوع پر اپنا مطالعہ پیش کرنے کی جسارت کرنا چاہوں گا –
بے ایمانی چاہے وراثت میں ہو یا کسی اور معاملے میں ‘ اس کا سبب انسان کا آخرت کے احتساب سے غافل ہونا ہے – قرآن میں وراثت کا قانون جہاں مذکور ہے وہیں ﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ہمیشہ کے عذاب کی وعید سنائی ہے جو اس قانون کو تبدیل کریں یا جان بوجھ کر اس کی خلاف ورزی کی جسارت کریں –
موصوف نے درست فرمایا ہے کہ وراثت سے متعلق نصوص قرآنی واضح ہیں –
بے شک ﷲ کے کلام کی شان یہی ہے کہ وہ ابانت کے اعلٰی ترین مقام پر ہے – البتہ اس کلام کی توضیح و تفہیم انسانی کام ہیں جس میں خطا کا امکان موجود رہے گا اور کسی توضیح سے علمی اختلاف بھی ہو سکتا ہے – مزید اس میں انسانی مداخلت سے پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں – یہ الگ بات ہے کہ ﷲ کی عطا کردہ ذہانت سے انسان اپنے ہی پیدا کردہ پیچیدگیوں کا اپنے تئیں حل بھی پیش کر دیتا ہے اور سہل پسند اکثریت اسے بخوشی قبول کر لیتی ہے –
البیان کے مؤلف نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے آیات وراثت کی مروجہ تفہیم سے اپنی بے اطمینانی کو دو مفسرین قرآن مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے سامنے رکھا – ان دونوں بزرگوں کا جواب یہ تھا کہ انھوں نے فقہا کے نقطہ نظر کو اپنی تفسیر میں لکھنے پر اکتفا کیا ہے اور انہیں کسی مزید تحقیق کی علمی طلب نہیں ہوئی –
ﷲ نے مکمّل قانون وراثت سورہ النساء کی تین آیات میں بیان کر دیا – ان میں سے دو آیات گیارہویں اور بارہویں نمبر پر ہیں اور تیسری اس سورہ کی آخری آیت ہے – ان آیات میں ﷲ نے وراثت میں اولاد’ والدین’ ازواج اور بھائی بہنوں کے حصے مقرر کر دئیے ہیں – تقسیم وراثت کا خلاصہ یہ ہے کہ میت کے والدین اور ازواج کا حصہ نکالنے کے بعد باقی بچے مال کی تقسیم اولاد یعنی بیٹے بیٹیوں کے درمیان دو ایک کے تناسب میں ہوگی – اولاد کی غیر موجودگی میں بھائی بہن ان کی جگہ ترکہ پائیں گے –
علم میراث پر متعدد ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں – علماء میراث نے وارثوں کو تین قسموں میں تقسیم کئے ہیں : ذوی الفروض ‘ عصبات اور ذوی الارحام – پھر مزید تقسیم در تقسیم بھی ہوئی ہیں – مختلف قسم کے وارثین کے لئے مختلف قوانین بیان کئے گئے ہیں – والدین اور احد الزوجین کو ذوی الفروض میں شمار کیا جاتا ہے اور اگر بیٹے بیٹیاں دونوں ہیں تو انہیں عصبات میں شمار کیا جاتا ہے البتہ صرف بیٹیاں ہوں تو وہ ذوی الفروض میں شمار کی جاتی ہیں – ذوی الفروض کا حصہ نکالنے کے بعد بچے ہوئے مال کی تقسیم عصبات کے درمیان ہوتی ہے – بیٹیوں کو ذوی الفروض میں شمار کرنے پر چند صورتیں ایسی آتی ہیں کہ سارے وارثوں کے حصے جوڑنے پر کل ترکے سے زیادہ ہو جاتا ہے – علم میراث کی اصطلاح میں اسے عول کہا جاتا ہے – مثال کے طور پر میت کے والدین، دو بیٹیاں اور بیوی کے درمیان تقسیم کرنا ہو تو ١/٣+٢/٣+١/٨=٩/٨ ہوتا ہے جو کل ترکے سے زیادہ ہے – اس کا حل علماء میراث نے یہ ایجاد کیا کہ ہر حصے کو ٨/٩ سے ضرب کر دیا جائے – ﷲ کی کتاب میں درج حساب کو غیر کامل imperfect سمجھ کر اس کیلئے mathematical manipulation کا طریقہ انسانی ذہن کی کوتاہ بینی کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے؟ وارث والدین کو ١/٣ اور دو بیٹیوں کو ٢/٣ دینے کے بعد بیوہ بیوی کے لیے کچھ نہیں بچتا – ایسا حساب اس رب کائنات کا کیسے ہو سکتا ہے جو ریت کے زروں کا حساب رکھتا ہے؟
مندرجہ بالا نکتہ آیت وراثت ٤:١١ کی تفہیم میں انسانی مداخلت سے ہوئی پہلی گڑبڑ لگتی ہے – آئیے اب آگے نظر دوڑاتے ہیں –
سی آیت ٤:١١ کے مطابق والدین میں سے ماں اور باپ دونوں کو ١/٦ ملے گا اگر وارثین میں اولاد بھی ہوں – اگر اولاد نہیں ہوں اور صرف والدین ہی وارث ہوں تو ماں کو ١/٣ اور باپ کو ٢/٣ ملے گا – پھر اگر بھائی بہن موجود ہوں تو ماں کو ١/٦ ملے گا – اس صورت میں باپ کو کتنا ملے گا اس کا ذکر نہیں ہے – جمہور علماء میراث کے مطابق باپ کو بچا ہوا سارا مال یعنی ٥/٦ مل جائے گا اور بھائی بہن کچھ نہیں پائیں گے – ایک رائے یہ بھی ہے کہ باپ کو بھی ماں کے برابر ١/٦ ملنا چاہیے اور باقی بھائی بہنوں میں تقسیم ہونا چاہیے – میں اسے صائب سمجھتا ہوں –
آیت ٤:١٢ میں احد الزوجین یعنی شوہر کے انتقال پر بیوی کا اور بیوی کے انتقال پر شوہر کے ترکہ کا بیان ہے – اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے – البتہ اسی آیت میں کلالہ کا ذکر ہے – سمجھا جاتا ہے کہ کلالہ اسے کہتے ہیں جس کی موت کے وقت نہ تو والدین زندہ ہوں اور نہ اولاد – لہٰذا سارا مال بھائی بہنوں میں تقسیم ہونا چاہیے – چونکہ بھائی بہن بیٹے اور بیٹیوں کی جگہ ہیں اس لئے بنیادی اصول کے مطابق پورا ترکہ دو ایک کے تناسب میں بھائیوں اور بہنوں کے درمیان تقسیم ہونا چاہئے – لیکن اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اگر ایک بھائی یا بہن ہے تو اس کو ١/٦ ملے گا اور اگر وہ ایک سے زیادہ ہوں تو وہ ١/٣ میں شریک ہوں گے – پھر اس سورہ کی آخری آیت میں کلالہ کے وارثین یعنی اس کے بھائی بہن کا ترکہ بیان اس اسلوب میں بیان ہوا جیسے لوگوں نے فتویٰ پوچھا ہو – یعنی ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بھائی بہن کا ترکہ جو گیارہویں یا بارہویں آیت میں بیان ہوا وہ لوگوں کو سمجھ میں نہیں آیا اس لئے اس کی وضاحت اس آیت میں کر دی گئی – اس آیت ٤:١٧٦ میں اولاد کی غیر موجودگی میں بھائی اور بہن کا حصہ وہی بیان ہوا ہے جو بیٹا اور بیٹی کا ہوتا ہے – سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دو آیات یعنی ٤:١٢ اور ٤:١٧٦ میں بھائی بہن کا حصہ مختلف کیوں ہے؟ جمہور مفسرین کے مطابق آیت ٤:١٢ میں اخیافی یعنی ماں شریکی بھائی بہن کا حصہ ہے اور آیت ٤:١٧٦ میں سگے بھائی بہن کا – علماء میراث نے اخیافی بھائی بہن کو ذوی الفروض شمار کیا ہے اور سگے بھائی بہن کو عصبہ – ذوی الفروض کے استحقاق کو عصبات پر مقدم مانا جاتا ہے – لہٰذا اگر کسی معاملے میں ماں زاد بھائی بہن ذوی الفروض کی حیثیت سے بچے ہوئے کل مال کے وارث ہو جائیں تو سگے بھائی کے لیے کچھ نہیں بچے گا –
مثال کے طور پر ایک عورت کا انتقال ہوا جس کے پیچھے اس کا شوہر، اس کی ماں اور دو اخیافی بھائی کے علاوہ چند سگے بھائی بھی ہیں – شوہر 1/2 ماں 1/6 اور دو اخیافی بھائیوں کو 1/6+1/6 دینے کے بعد سگے بھائی کے لیے کچھ نہیں بچے گا – میں نے پڑھا ہے کہ قضیہ حماریہ (doctrine of donkey) والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشہور فیصلے کو فقہاء نے مستقل قانون کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا ہے – جنہیں دیکھنا ہو وہ مندرجہ ذیل اقتباس میں دیکھ سکتے ہیں
آیت ٤:١٢ اور ٤:١٧٦ کا موازنہ کریں تو دونوں جگہ بھائی بہن کے الفاظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ ٤:١٢ میں اخیافی کے معنی اختیار کئے جائیں – پھر یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ آیت ٤:١٢ میں پہلے اخیافی بھائی بہن کا ذکر اور بعد میں سورہ کے آخری آیت ٤:١٧٦ میں سگے بھائی بہن کا ذکر ایسا کیوں؟ یہ حیران کن امر ہے کہ جمہور مفسرین اس آیت میں اخ اور اخت سے ماں شریکی بھائی بہن مراد لینے میں نہایت مطمئن نظر آتے ہیں – تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ سعد بن وقاص وغیرہ بعض سلف کی قرات میں “اخ او اخت” کے ساتھ “من ام” یعنی ماں زاد کا لفظ موجود تھا –
میں اس تحقیقی تفسیر کو صائب سمجھتا ہوں جس کے مطابق آیت ٤:١١ میں بھائی بہن کا حصہ مضمر ہے اور اس کی وضاحت آیت ٤:١٧٦ میں کی گئی ہے – آیت ٤:١٢ ایک دوسری بات کہی گئی ہے – “وَ اِنۡ کَانَ رَجُلٌ یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امۡرَاَۃٌ” میں لفظ کلالہ مورث کے لئے نہیں وارث کے لئے آیا ہے – لہٰذا ” وَ اِنۡ کَانَ رَجُلٌ یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امۡرَاَۃٌ وَّ لَہٗۤ اَخٌ اَوۡ اُخۡتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنۡ کَانُوۡۤا اَکۡثَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَہُمۡ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ” کا ترجمہ البیان میں یوں کیا گیا ہے – ” (وارثوں کی عدم موجودگی میں) اگر کسی مرد یا عورت کو اس سے رشتہ داری کی بنا پر وارث بنا دیا جاتا ہے اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہے تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر وہ ایک سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہوں گے اور باقی اس کو ملے گا جسے وارث بنایا گیا ہے” –
البیان کے حاشیہ میں لکھا ہے : “وَ اِنۡ کَانَ رَجُلٌ یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امۡرَاَۃٌ” میں لفظ ’کَلٰلَۃً‘ والدین اور اولاد کے سوا باقی سب رشتہ داروں کے لیے آیا ہے۔ اِس معنی کے لیے اِس کا استعمال عربی زبان میں معروف ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ یہ اُس شخص کے لیے بھی آتا ہے جس کے پیچھے اولاد اور والد، دونوں میں سے کوئی نہ ہو، لیکن آیت ہی میں دلیل موجود ہے کہ یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں۔ ’یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ‘ سے جو سلسلۂ بیان شروع ہوتا ہے، اُس میں اولاد اور والدین کا حصہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وصیت پر عمل درآمد کی تاکید ’مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنٍ‘ کے الفاظ میں کی ہے۔ زوجین کے حصوں میں اِسی مقصد کے لیے ’مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ‘ اور ’مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ تدبر کی نگاہ سے دیکھیے تو اِن سب مقامات پر فعل مبنی للفاعل استعمال ہوا ہے اور ’یُوْصِیْ‘، ’یُوْصِیْنَ‘ اور ’تُوْصُوْنَ‘ میں ضمیر کا مرجع ہر جملے میں بالصراحت مذکور ہے، لیکن کلالہ کے احکام میں یہی لفظ مبنی للمفعول ہے۔ یہ تبدیلی صاف بتا رہی ہے کہ ’اِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ‘ میں ’یُوْصٰی‘ کا فاعل، یعنی مورث مذکور نہیں ہے، اِس وجہ سے اِس آیت میں ’کَلٰلَۃً‘ کو کسی طرح مرنے والے کے لیے اسم صفت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ تغیر حجت قطعی ہے کہ قرآن مجید نے یہ لفظ یہاں اُس شخص کے لیے جس کے پیچھے اولاد اور والد، دونوں میں سے کوئی نہ ہو، استعمال نہیں کیا ہے۔ چنانچہ آیت کی تالیف ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ’یُوْرَثُ‘ باب افعال سے مبنی للمفعول ہے۔ ’کَلٰلَۃً‘ اِس سے مفعول لہ ہے۔ ’کَانَ‘ ناقصہ ہے اور ’یُوْرَثُ‘ اُس کی خبر واقع ہوا ہے۔ ’رَجُلٌ اَوِ امْرَاَۃٌ‘ ’کَانَ‘ کے لیے اسم ہیں۔ وارث بنانے کا جو اختیار اِس آیت میں دیا گیا ہے، وہ ظاہر ہے کہ مرنے والے ہی کو ہو گا اور اِس کے معنی اِس سیاق میں یہی ہو سکتے ہیں کہ اُن وارثوں کی عدم موجودگی میں ترکے کا وارث بنا دیا جاتا ہے جن کے حصے اوپر بیان ہوئے ہیں۔
علماء میراث نے تقسیم وراثت کے باب میں شوہر اور بیوی کو ذوی الفروض سببی کہا ہے اور آیت ٤:١٢ میں بیان ہوئے ترکہ کے بعد بچے ہوئے مال کی دوبارہ تقسیم سے محروم کر دینے کا اصول وضع کیا ہے – لہٰذا اگر کسی مرد کا انتقال ہوا اور صرف بیوی ہی وارث رشتہ دار ہے تو اسے صرف ایک چوتھائی ملے گا اور باقی تین چوتھائی میت کے خادم کو مل سکتا ہے – اسی طرح اگر میت کوئی عورت ہو اور وارث رشتہ دار صرف شوہر ہو تو اسے آدھا ملے گا اور باقی آدھا میت کے خادم کو مل سکتا ہے –