مضامین و مقالات

احمقانہ جنگین

شکیل اشرف

ﷲ نے انسانوں کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے اور اس پر کوئی جبر نہیں رکھا ہے بلکہ ‘لا اکرہ فی الدین’ کے اصول پر عقیدہ و عمل کی آزادی عطا کی ہے – آزادی اور امن و امان انسان کے لیے اہم ترین بنیادی ضرورتوں میں سے ہے – امن و امان کا پامال ہونا انسانیت کا بڑا حادثہ ہے –

جنگ بنیادی طور پر نہایت بری چیز ہے – لیکن جب کوئی ظالم قوم امن و امان کو پامال کرنے کا جرم کریں تو ﷲ نے ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ امن و امان بحال ہو سکے – یہ صالحین کے کرنے کا کام ہے اگر انہیں جنگ جیتنے کے لیے ضروری طاقت میسر ہو – اگر صالحین کو طاقت میسر نہیں ہو تو اس کام کے لیے ﷲ کوئی اور ذریعہ پیدا کر دیتا ہے جیسا کہ سورہ البقرہ کی آیت 251 اور سورہ حج کی آیت 40 میں ہے کہ ﷲ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع کرتا رہتا ہے – کوئی ضروری نہیں ہے کہ ظالموں کو دفع کرنے کا کام ﷲ تعالیٰ ہمیشہ صالحین سے ہی لیں –

اگر متناسب جنگی طاقت کے بغیر صالحین دشمن پر حملہ کریں اور ان کی شکست ہو جائے تو ظاہر ہے امن قائم نہیں ہو سکتا اور دشمن کا ظلم مزید بڑھ جائے گا – پھر ایسی جنگ سے کیا فائدہ؟

کوئی کہہ سکتا ہے کہ اصل طاقت ایمان میں ہوتی ہے – لہٰذا متناسب جنگی قوت کے بغیر بھی ﷲ کی نصرت پر یقین رکھتے ہوئے جنگ شروع کر دینا چاہیے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ‘مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی’ –
قرآن کیا کہتا ہے اس معاملے میں؟

قرآن کے مطابق رسول الله کی قیادت میں سابقون الأولون صحابہ کرام کی جماعت کو ﷲ کا وعدہ تھا کہ وہ جنگی طاقت کے 1:10 کے تناسب میں ﷲ کی مدد سے جنگ جیت لیں گے – پھر جب نئے لوگ ایمان لا کر صحابہ کی جماعت میں شامل ہونے تو ان کے ایمان کے ضعف کی بنیاد پر ﷲ نے جنگ میں فتح کے لیے طاقت کا یہ تناسب بڑھا کر 1:2 کر دیا – غور کرنے کی بات ہے کہ جنگی قوت کا یہ تناسب ﷲ نے قدسیوں کی جماعت کے لیے رکھا تھا جسے ﷲ کے رسول کی قیادت میسر تھی – اس لحاظ سے آج کے عام مسلمانوں کے لیے یہ تناسب کیا ہونا چاہیے؟
بعض اصحاب علم و فکر کی یہ رائے مجھے پسند ہے کہ طاقت کے تناسب کے بغیر جنگ شروع کرنا بہت بڑی حماقت ہے – امن اتنی غیر معمولی شئ ہے کہ اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہیے – اسی لیے تو مشکل مکی دور میں جان بچانے کے لیے ﷲ نے اہل ایمان کو زبان سے کلمہ کفر کہنے کی بھی اجازت دے دی تھی –
جنگ چھیڑنے والے کے پاس اگر اپنے دفاع کی معمولی قوت بھی نہیں ہو تو میں نہیں سمجھتا کہ اسے حماقت کے سوا کچھ اور کہا جا سکتا ہے –

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button