
ہم خود بکرے بن گئے ہیں
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
عید الاضحیٰ مبارک!
زین شمسی
عید قرباں سے ایک دن قبل جب دل و ذہن میں بس بکرے کا ہی خیال آتا ہے کہ جب تک دو دانت والا بکرا گھر میں داخل نہ ہو جائے تب تک گھر والے سانس تک لینے نہیں دیتے ایسے میں جب حکم صادر ہو کہ اس دن ایک مضمون بھی لکھنا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے مجھے ہی بکرا بنا دیا گیا ہو۔
سنت ابراہیمی مسلمانوں پر فرض کر دی گئی تاکہ خدا کے لئے عشق خلیل کا جذبہ تمام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ بن سکے۔ اللہ کے نام پر قربانی کا جذبہ رکھنے والے ہی دین و دنیا میں کا میاب ہوتے ہیں۔ اللہ نے ابراہیم کو ہر طرح سے ازمایا اور ہر مشکل ترین امتحان میں وہ کامیاب ہو کر نکلے۔ بیٹے کو اللہ کے نام پر ذبح کرنے والا مشکل ترین امتحان ابراہیم علیہ السلام کے عشق الٰہی کا ایسا ثبوت ہے کہ جو دنیا میں قربانی کی بے نظیر مثال ہے۔ یہ صرف ابراہیم کی خدا سے شدید محبت کی ہی مثال نہیں ہے بلکہ بیٹے کی اطاعت کا بھی ثبوت ہے۔ ابراہیم کے امتحانوں میں کامیابی کا ہی نتیجہ ہے کہ آتش نمرود بھی ان کے لئے گلستان بنا دی جاتی ہے۔ عقل محو حیرت رہ جاتا ہے اور عشق بے خطر نظر آتا ہے۔
قربانی دراصل اسی جذبہ کا نام ہے کہ جس میں خلوص ہو نیک نیتی ہو، جزبہ ہو ،ایثار ہو۔ عید الاضحی اسی جذبہ کو ژندہ رکھنے کا دن ہے ۔ ایثار و قربانی کی روایت کو ژندہ رکھنے کا موقع ہے۔
اسلام نے اپنے چاہنے والوں کو کئی ایسے تحائف سے نوازا ہے کہ وہ لاکھوں سجدوں سے خدا کا شکر ادا کرے تب بھی اللہ کا احسان ختم نہیں کر سکتا۔ روزہ، جس نے بھوک کا احساس ہی نہیں کرایا بلکہ بھوکے رہنے کے درد سے آشنا کراتے ہوئے یہ اشارہ دیا کہ غریبوں کی حالت پر ہنسو مت بلکہ اس کی عزت کرو کہ وہ غلط کاری کرنا پسند نہیں کرتا تاہم اسے شدید بھوک لگی ہے۔ زکوٰۃ ، اللہ رب العزت کا دوسرا تحفہ ہے، جس کے استعمال سے نہ صرف بندہ اللہ کی رضا حاصل کرتا ہے۔ بلکہ سماجی طور پر دوسرے انسانوں کے لئے خدمت گار کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ زکوٰۃ دراصل انسان کی معاشی آمدنی میں اللہ کا ساجھا ہے۔ اللہ کا جو شئیر ہے اسے اللہ نے اپنے غریب بندوں میں تقسیم کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ اس سسٹم کے سبب ایسے بندے جو صاحب استطاعت نہیں ہیں وہ بھی اپنے رب کے حضور سجدہ شکر ادا کرپاتے ہیں اور یہ قربانی جو علامت ہے اپنا سب کچھ اللہ کے حضور قربان کر دینے کا۔ اسلام نے دنیاوی امور کو بہتر بنانے کے لئے جو اصول مرتب کئے اگر دنیا اس اصول پر پابند عمل ہو جائے تو حسین تر ہو جائے۔
دراصل اسلام سے منکر لوگ جو آج پوری دنیا میں اسلام سے متنفر ہیں اس کی وجہ یہی اسلامی اصول و قواعد ہیں۔ غور سے دیکھیں تو غیر مسلمان مسلمانوں کو اسی لئے ڈراتے ہیں کہ وہ اسلامی عقائد سے ڈرتے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اسلامی قانون ناانصافی پسند نہیں کرتا۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اسلامی عقائد رشوت اور سود خوری کے سخت خلاف ہے۔ نشہ ، جھوٹ اور چغل خوری کو گناہ سمجھتا ہے۔ فحاشی اور بے لباسی ، نیم عریانی اور زناکاری سے سخت نفرت کرتا ہے۔ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہتا ہے۔ انسان اور انسان کے درمیان فرق نہیں کرتا، خواہ ذات پات ہو یا نسل و فرقہ ہو۔ ہم آہنگی اور خوش کن مباحثہ کا شیدائی ہے۔ گویا دنیا میں اچھائی کے فروغ کا حامی ہے اور برائی کے خلاف ڈٹ کر کھڑا رہنے کا مادہ رکھتا ہے۔
معاشیات پر منحصر رہنے والی کاروباری دنیا کو اسلامی اصولوں سے پرہیز ظاہر ہے۔ اسی لئے ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں اسلامی طرز زندگی کے خلاف مورچہ کھلا ہوا ہے اور یہ مورچہ مختلف مورچوں کے ساتھ اسلامی عقائد پر دبش دے رہا ہے۔ ان کی پالیسیوں ۔یں بہت سارے مسلمان پھنس بھی چکے ہیں ، کہیں ماڈرن طرز زندگی کی ہوس میں، کہیں رثبوں اور عہدوں کے لالچ میں، کہیں کم علمی اور تعصب کے بنیاد پر، کہیں خوف اور مصلحت کے سائے میں۔
آج جب اپنی کمیونٹی کی طرف نظر ڈالیں تو اسلام اور مسلمان دو مختلف چہرے ہیں۔ ان کے قرآنی آیات کچھ اور کہتے ہیں اور ان کے حرکات و سکنات کچھ اور کہتے نظر آتے ہیں۔ قول و فعل میں تضاد نے ان پر غیر اقوام کو مسلط کرنے کی راہ آسان کر دی ہے۔ مسلمان اتنا بھی نہیں سمجھ سکے اب تک کہ دنیا کی غیر قوموں کا زور بس اتنا ہی ہے کہ مسلمان اذان کو نہیں سمجھ سکیں، قرآن کے آیات سے نابلد ہوتے جائیں، روزہ کی اہمیت کو بھول جائیں، زکوٰۃ سے منہ موڑ لیں اور قربانی کے جذبہ کو ترک کردیں۔ بس اتنا ہو جائے تو ان کا مقصد پورا ہو جائے اور خصلت مسلمان یہ اشارہ دے رہی ہے کہ وہ کامیاب ہوتے جا رہے ہیں۔
اسی لئے کہ انہیں سنت قربانی یاد رہی ہے اور عشق خلیل سے واسطہ نہ رہا۔ حب رسول سے رشتہ نہ رہا۔ ہم بکرا خریدنے میں مست ہیں اور دنیا کی سازشیں ہمیں بکرا بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ ہمیں اپنی ہی روایت و ثقافت سے دور کرتی جارہی ہے۔۔