
مضامین و مقالات
کیا ایک عورت بیک وقت ایک سے زائد شوہر رکھ سکتی ہے؟
ریاض فردوسی۔9968012976
ایک عورت کا بیک وقت ایک سے زائد مردوں سے شادی کرنے کے رسم کو Polyandry ( کثرت خاوند) کہتے ہیں اور اس کے برعکس ایک مرد کا بیک وقت ایک سے زائد عورتوں سے شادی کرنے کے رسم کو Polygyny ( کثرت ازواج) کہتے ہیں۔ شریعت موسوی میں ایک عورت کا بیک وقت ایک سے زائد مردوں سے شادی کرنے کا مثال نہیں ملتا یعنی یہودیوں میں Polyandry کا رواج نہیں ہے۔ اسی طرح عیسائیت میں بھی کثرت خاوند کا کوئی تزکرہ نہیں ملتا۔رومیوں کے نام لکھے گۓ ایک خط میں سینٹ پال لکھتے ہیں کہ ایک شادی شدہ عورت اپنے شوہر سے اس کے زندہ رہنے تک بندھی ہوئی ہوتی ہے،اگر وہ اپنے شوہر کے حیات میں کسی دوسرے مرد کے ساتھ رہتی ہے تو اسے زانیہ قرار دیا جائے گا۔اجمالی طور سے سینٹ پال بھی Polyandry ( کثرت خاوند) کے خلاف تھے۔
دین اسلام کے مطابق ایک مرد بیک وقت چار عورتوں سے زیادہ شادی نہیں کر سکتا اور عورت تو صرف بیک وقت ایک ہی شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے یعنی دین اسلام میں Polygyny کی اجازت تو ہے لیکن Polyandry کا حکم نہیں ہے۔
ہندو سماج Monogamous ہوتا ہے یعنی ہندوؤں میں ایک مرد ایک ہی عورت سے شادی کرتا ہے۔
ہندو سماج میں تعدد ازواج کے دونوں ہی شکلیں یعنی کثرت خاوند اور کثرت ازواج کی مثالیں نہیں پائی جاتی۔کچھ ہندو برادری کے معاشرے میں کثرت خاوند یعنی (Polyandry) کی ایک اور قسم ہوتی ہے جسے Fraternal polyandry یعنی برادرانہ پولیاینڈری کہا جاتا ہے۔اس قسم کی شادی میں ایک عورت کئی بھایئوں کی مشترکہ بیوی ہوتی ہے۔ اس کی مثال مہابھارت میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں دروپدی پانچ(5)پانڈو بھایئوں کی بیوی تھی۔
ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ پولی اینڈری ایسے معاشرے میں ہوتی ہے،جہاں قدرتی وسائل (Natural resources) کی قلت ہوتی ہے۔
مثلاً ہمالیہ کے پہاڑی خطوں میں جہاں رہائشی زمین کی قلت ہوتی ہے،وہاں ایک ہی خاندان کے ایک سے زائد بھائی ایک ہی عورت سے بیاہ کرتے ہیں،جس سے اس خاندان کی زمین جیوں کا تیوں بنی رہتی ہے اور زمین کا بٹوارہ نہیں ہوتا ہے اور سبھی لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں کیونکہ بیوی سبھوں کی مشترکہ ہوتی ہے اور اگر سبھی بھائی الگ الگ عورت سے شادی کرے اور سبھوں کے اولاد بھی ہوں تو ایسی حالت میں خاندانی زمین تمام بھایئوں کے مابین چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہوکر رہ جاتی ہے۔زمین کی تقسیم سے اجتناب کرنے کے لۓ ایسے علاقے کے لوگ پولی اینڈری نوعیت کا بیاہ کرتے ہیں۔
کثرت خاوند بیاہ کے نتیجے میں مشترکہ ولدیت Partible Paternity یا Shared Paternity کا تصور وجود پزیر ہوتا ہے یعنی اس بیاہ کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہوتا ہے،اس کا ایک ہی باپ نہیں ہوتا بلکہ وہ سارے مرد باپ ہوتے ہیں،جو اس عورت سے بیاہ کیے ہوتے ہیں۔اس بیاہ میں جو تمدنی فکر کام کرتا ہے،وہ یہ ہے کہ عورت کے حمل سے پہلے یا حمل کے دوران جتنے مرد اس عورت کے ساتھ دخول عمل کا کام کرتے ہیں وہ سبھی مرد بچے کے اندر حیاتیاتی مادہ ( Biological Material) منتقل کرتے ہیں۔اسی لۓ وہ سبھی مرد اس بچے کے باپ ہوۓ اور اس لیے ان تمام باپوں کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ اس بچے کی پرورش کریں۔
جو لوگ پولی اینڈری کی حمایت کرتے ہیں اس کی وجہ Gender Imbalance بتاتے ہیں،یعنی اسقاط حمل یا کوئی دوسری وجہ سے لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابل کم ہونا۔اس لۓ ایسے لوگ اشتراک کی بیاہ کی حمایت کرتے ہیں۔
جنوبی امریکہ کے Venezuela میں ایک قوم رہتی ہے جسے Bari کہا جاتا ہے۔اس قوم کا یہ نظریہ ہے کہ ایک بچے کے متعدد حیاتیاتی والد Biological Fathers ہو سکتے ہیں۔اس لیے زیادہ تر معاملات میں شادی شدہ عورتیں اپنے اصل شوہر سے حاملہ ہونے کے بعد دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات بناۓ رکھتی ہیں حالانکہ اس بات کا علم اس کے شوہر کو رہتا ہے لیکن وہ اس پر اعتراض نہیں کرتا اور پھر بچے کے پیدائش کے بعد عورتیں جن جن مردوں کے ساتھ حمل کے وقت ہمبستری کی تھی ان کے نام بتا دیتی ہے۔اس معاشرتی رسم میں اصل شوہر بچے کا Primary Biological Father. کہلاتا ہے اور دیگر مردوں کو Secondary Fathers کہا جاتا ہے،یہ دوسرے درجہ کے جو باپ ہوتے ہیں وہ بچہ کو شکاری جانور کا گوشت اور مچھلی کھلاتے ہیں۔
جنوبی امریکہ کے مشرقی پیراگوئے ( Paraguay) میں ایک اور قوم بستی ہے جسے Ache کہتے ہیں، اس قوم کے بچوں کے بھی متعدد والد Multiple Fathers ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو تشدد سے حفاظت کرتے ہیں۔بحرالکاہل میں واقع Hawaii جزیرہ کے لوگ بھی مشترکہ ولدیت کے نظریہ کے قایل تھے، Hawaii کے راجہ Kamehameha I کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے بھی دو باپ تھے۔
برادرانہ پولینڈری (Fraternal Polyandry) کا رواج تبت،نیپال اور شمالی ہند کے بعض علاقے اور کچھ مرکزی افریقی تمدن میں پہلے سے رائج تھے اور اب بھی رائج ہیں۔
جنوبی ہند کے Toda قوم بھی اس معاشرتی رواج پر عمل پیرا ہیں۔پنجاب کے مالوہ خطے کے زرعی معاشرے میں زرعی زمین کی تقسیم سے بچنے کے لئے لوگوں میں برادرانہ پولینڈری کا رواج جاری ہے۔
انیسویں صدی میں انگلینڈ میں Primogeniture نامی ایک قانون تھا،جس کے مطابق ایک خاندان کے سب سے بڑے لڑکے کو ہی خاندان کی وراثت منتقل ہوتی تھی اور باقی بھایئوں اور بہنوں کو وراثت کا حصہ نہیں دیا جاتا تھا تاکہ زمین کا بٹوارہ اولاد کے مابین نہ ہو اور اس طرح باپ کی زمین بغیر تقسیم ہوۓ ایک نسل سے دوسرے نسل منتقل ہوتی رہتی تھی۔برادرانہ پولی اینڈری کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ زمین کی تقسیم نہیں ہونے پاۓ اور اس کے لۓ تمام بھایئوں کی شادی ایک ہی عورت سے کرا دی جاتی ہے اور اس طرح زمین بغیر تقسیم ہوۓ ایک نسل سے دوسرے نسل تک منتقل ہوتی رہتی ہے۔
پولی اینڈری کا تبت میں ایک عام رواج تھا اور آج بھی ادنی درجہ میں یہ عمل جاری ہے۔بھوٹان اور نیپال کے شمالی علاقے اور چین کے کچھ حصوں میں بھی یہ رواج موجود ہے۔ہمارے ملک بھارت کے کچھ خاص علاقوں جیسے راجستھان،لداخ،اتراکھنڈ کے کچھ علاقوں میں اس طرح کا بیاہ ہوتا ہے۔ افریقہ براعظم کے بعض ممالک جیسے نائیجیریا، کینیا،شمالی تنزانیہ اور Canary Islands کے لوگوں میں بھی بیاہ کی یہ قسم رائج ہے۔
سینٹرل افریقہ کے Lake Region میں پولی اینڈری بہت ہی عام تھا۔پانچویں(5)صدی سے لیکر آٹھویں(8)صدی تک وسط ایشیا میں White Huns میں پولی اینڈری کا عمومی رواج تھا۔
بھارت کے ہمالیہ خطے اور لداخ میں بھی پولی اینڈری کا عمل جاری تھا،اور اب بھی جاری ہے۔
سال 2008 ء میں تبت کے کچھ گاؤں میں نوے(90) فیصد سے زیادہ خاندان پولی اینڈری قسم کا بیاہ کرتے تھے۔نیپال کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے تبتیوں کے مابین بھی یہ رواج عام تھا۔سال 1914 ء میں بھوٹان میں پولی اینڈری ایک گھریلو رواج بنا ہوا تھا۔بھارت کے پڑوسی ملک سری لنکا میں Kandyan Marriage law کے تحت فریٹیرنل پولی اینڈری کو قانونی اجازت حاصل تھی اور اب بھی ہے۔یورپ کے قدیم یونان خاص کر اسپارٹا اور Lacedaemon میں بھی پولی اینڈری کا عام رواج تھا،بعض جگہ اب بھی یہ رواج موجود ہے۔رومن شہنشاہ جولیس سیزر کے مطابق Ancient Britons میں عام رواج یہی تھا کہ بھایئوں کی بیوی مشترکہ ہوا کرتی تھی۔
اسلام کے مخالفین دین اسلام میں( Polygyny یعنی ایک مسلمان مرد بیک وقت زیادہ سے زیادہ چار عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے) کی جو اجازت دی گئی ہے،اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ایک مرد چار بیویوں کو رکھ سکتا ہے تو ایک عورت چار شوہروں کو کیوں نہیں رکھ سکتی ہے۔اگر پولی
اینڈری کی خامیوں کو دیکھا جائے تو ہم آسانی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں اس طرزِ کی نکاح کیوں ممنوع ہے۔پولی اینڈری ایک غیر اخلاقی شادی ہے۔کوئی بھی مہذب اور اخلاقی حس رکھنے والی قوم اس طرح کے بیاہ کو اچھا نہیں سمجھتی ہے۔اس طرح کی شادی میں عورت مردوں کے لیے محض ایک Sex Tool بن کر رہ جاتی ہے۔
عورتوں کے لۓ یہ ایک مظلومانہ شادی ہے جہاں کئ مرد شادی کے نام پر عورت کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔اس نوعیت کی شادی میں خاندان کا ادارہ قائم ہی نہیں ہوتا۔خاندان تو میاں بیوی اور ان دونوں کے بچوں پر مشتمل ایک ادارہ کا نام ہے،جس میں سبھی لوگ ایک چھت کے نیچے شوہر کی سربراہی میں رہتے ہیں۔پولی اینڈری میں ایک عورت اپنے کئ شوہروں اور بچہ یا بچوں کے ساتھ ایک گھر میں رہتی تو ہے لیکن اسے فیملی یا خاندان کا نام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس میں یہ بات معلوم ہی نہیں ہو سکتا کہ لڑکا یا لڑکی کا باپ کون ہے۔ جدید دور میں اگر DNA کے ذریعہ بچہ یا بچے کی ولدیت معلوم یو بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فلاں مرد کا فیملی ہے باقی مردوں کا تو فیملی کا وجود ہی قیام میں نہیں آیا۔اس قسم کی شادی میں جو مرد باپ نہیں بن پاتا اس کا نسل آگے نہیں بڑھ پاتا،اور شادی کا ایک مقصد نسل افزائش کرنا ہوتا ہے،اور جو مرد باپ نہیں بن پاتا اس کو اپنی بیوی سے سواۓ شہوت رانی اور جنسی تسکین کے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
پولی اینڈری میں عورت سے جو بچہ پیدا ہوگا اس کے اصل باپ پر اس بچے کی پرورش کی ذمہ داری تو ٹھیک ہے لیکن دیگر مردوں پر بچے کا حقوق و فرائض کی ذمہ داری کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں ہے۔یہ کیسی عجیب بات ہے کہ بچے کا باپ کوئی اور ہو اور پرورش کی ذمہ دار ری کسی اور کے سر پر ہو۔
پولی اینڈری کا یہ تصور کہ ایک بچہ کی پیدائش میں متعدد شوہر حیاتیاتی مادہ بچہ میں منتقل کرتے ہیں ایک غیر سائنسی تصور ہے۔
سائنس سے یہ بات ثابت ہے کہ ایک عورت متعدد مردوں سے نہیں بلکہ ایک ہی مرد سے حاملہ ہوتی ہے۔
خود ایک ہی مرد کے لاکھوں اسپرم میں سے ایک ہی اسپرم ( Sperm) عورت کے اووم ( Ovum) سے ملکر بچہ کی تشکیل کرتا ہے۔ بچہ کے DNA میں والدین یعنی اصل ماں اور باپ کا ہی DNA منتقل ہوتا ہے۔پولی اینڈری میں جب عورت کو اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ فلاں مرد دیگر مردوںسے زیادہ اسے جنسی تسکین دیتا ہے اور زیادہ دیر تک دخول عمل کرتا ہے تو وہ عورت اسی مرد کے ساتھ زیادہ جنسی عمل کرنا چاہے گی اور دوسرے مرد کو محروم رکھے گی۔
اس بیاہ میں عورت پر جنسی ظلم ہوتا ہے۔فرض کریں ایک عورت کے چار شوہر ہیں،اگر پورے چوبیس گھنٹے میں ہر شوہر دو بار کرکے اپنی بیوی سے سیکس کرے گا تو اس عورت کو کم از کم آٹھ بار سیکس کرنی پڑے گی۔اب یہ عورت کے لۓ کتنی مشکل بات ہے۔اگر ایک دو بار سیکس کرنے کے بعد عورت تھک جاتی ہے اور مزید سیکس نہیں کرنا چاہتی ہے تو اس کے دوسرے شوہر ناراض ہو جائے گے۔اس میں یہ بھی طۓ کرنا مشکل ہے کہ کون اپنی بیوی سے پہلے مباشرت کرے گا۔دوسری بات یہ کہ اگر ہر شوہر کے کم از کم ایک ہی بچہ ہو تو اس عورت کو کم ازکم چار بچوں کو جنم دینا ہوگا۔
اس بیاہ میں سب سے پیچیدہ مسلہ ولدیت کا ہے۔ جدید دور میں بچوں کی پیدائش Caesarean طریقہ سے ہو رہی ہے،اس طریق سے بچے کی پیدائش کے بعد عورت کا ligation کر دیا جاتا ہے، جس سے عورت مستقبل میں بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی جس کے باعث باقی مرد باپ نہیں بن سکتے۔اس بیاہ میں اس بات کا امکان ہے کہ پہلا شوہر باپ بننے کے بعد بار بار وہی باپ بنتا رہے اور باقی لوگ ولدیت سے محروم رہے۔اس بیاہ میں یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اگلے بچہ کا باپ کون ہوگا،ہو سکتا ہے کہ پہلا شوہر یا دوسرا یا تیسرا یا چوتھا ہی شوہر تمام بچوں کا باپ بن جائے یا کچھ بچوں کا باپ کوئی ہو اور کچھ بچوں کا کوئی اور۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس بیاہ میں ولدیت غیر یقینی ہے۔ اس لیے الہامی مذاہب بشمول اسلام نے پولی اینڈری پر جو پابندی لگائی ہے وہ اخلاقی،سائنسی،تہذیبی اور عقلی لحاظ سے بالکل مناسب ہے۔
ان ہی تمام وجوہات کے بنا پر یہودیت،عیسایت اور غالباً دیگر مذاہب اور ان کے قوانین شریعت اسلام(خاص طور شریعت محمدی ﷺ) کو مانتے ہوۓ ایک عورت کو ایک سے زائد مردوں سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔