مضامین و مقالات

پچھیہتر سالوں کی سیاست میں مسلمانوں کو کیا ملا ؟؟؟

احساس نایاب شیموگہ کرناٹک

بھارت کی پچیہتر سالہ سیاست کے نفع نقصان اور اُن کی وجوہات پر سنجیدگی سے غور وفکر کیا جائے تو مسلمانوں کے حصہ میں خسارے و حق تلفی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔
بھارت کی دوسری بڑی اکثریت ہونے کے باوجود آج ہماری سیاسی پہچان سیاسی وجود پوری طرح سے ختم کردیا گیا ہے اس پر مزید کچھ لکھیں اس سے پہلے کرناٹک کہ حالیہ الیکشن کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔

گزشتہ دس مئی 2023 کو ریاست کرناٹک میں 224 سیٹوں پر اسمبلی انتخابات ہوئے، جس کے نتائج 13 مئی کو سامنے آئے ہیں
ریاستی پارٹی جے ڈی ایس نے 19 سیٹس اور بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے 66 سیٹس حاصل کی ہیں
جبکہ کانگریس 136 سیٹوں سے کامیابی حاصل کر کرناٹک میں سرکار بناچکی ہے ۔۔۔۔۔۔
کانگریس کے سینئیر لیڈر سدھرامیا شروعات کے دھائی سال تک سی ایم بنے رہیں گے، ان کے بعد مزید ڈھائی سال کے لئے ڈی کے شیوکمار کو سی ایم بنایا جائے گا ۔۔۔۔۔۔

یہاں پہ اگر کانگریس کی جیت کا جائزہ لیا جائے تو اس بار مسلمانوں کا کردار اہم رہا ہے بالخصوص علماکرام جو مبارکبادی کے حقدار ہیں
ان حضرات نے جس طرح سے خود متحد ہوکر مسلمانوں کو متحد کیا، کانگریس کے کھوئے وقار کو واپس لانے کی جدوجہد کی ہے وہ بیشک قابل ستائش ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج بھی مسلمان اگر ٹھان لیں تو بدترین حالات میں بھی ظالم حکمرانوں کے تخت و تاج پلٹنے کی قوت رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
پچہتر سال پہلے بھی یہی مسلمان تھے جنہونے قدم قدم پہ گاندھی خاندان کا ساتھ دیا، انہیں سیاسی طور پہ مضبوط بنایا، کانگریس کے نام سے انہیں پہچان دلائی اور آج پچہتر سال بعد بھی یہی مسلمان ہیں جنہونے کانگریس کے ہر مکر و فریب ہر زیادتی اور مسلمانوں سے سوتیلے رویہ کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کیا ہے اور کانگریس کے زوال پزیر وجود میں دوبارہ جان بھری ہے ۔۔۔۔۔

لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار مسلمانوں کی وفاداری کا صلہ خود کو سیکولر کہلانے والی کانگریس کس انداز میں دے گی ۔۔۔۔۔۔۔
امید تو یہی ہے کہ کرناٹک کی نئی سرکار کرناٹک کے ساتھ ساتھ پورے بھارت کے لئے خیر کا پیغام لائے گی اور اچھے دنوں کا جملہ سچ ہوگا ۔۔۔۔۔۔
خیر یہ آنے والے دن بتائیں گے
لیکن اس پورے الیکشن کے دوران مسلم رہنماؤں کی سیاسی جدوجہد کے علاوہ بھی ایسی کئی باتین سامنے آئی ہیں جو علمائے کرام کے کردار پر سوالیہ نشان لگارہی ہیں ۔۔۔۔۔
اور ایک عام مسلمان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ آج جس طرح سے ہمارے علماکرام نے مسلکی و فرقہ واری اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک و ملت کے خاطر قوم کو متحد کرکے کانگریس کو مکمل تعاون پیش کیا ہے اور دم توڑتی کانگریس کے اندر زندگی کی روح پھونکنی ہے آخر یہی کام برادران قوم کے حق میں کیوں نہیں ہوپایا ؟؟؟
سوال کڑوا ضرور ہے مگر حالات کے تناظر میِں پوچھنا واجب ہے !
بھارت میں پچیہتر سالوں سے کانگریس کو مضبوط بنانے اور اقتدار میں لانے کے لئے مسلم رہنماؤں نے جتنی جدوجہد و قربانیاں دی ہیں کاش اس کی آدھی محنت بھی اگر قوم مسلم کا سیاسی وجود برقرار رکھنے مسلم نوجوانوں کو سیاسی طور پر مضبوط بنانے کے لئے کی ہوتیں تو آج مسلمان اپنے بنیادی حقوق کے لئے غیروں کے محتاج نہ ہوتے ۔۔۔۔۔ نہ ہی اپنے وطن عزیز میں دوسرے درجہ کے شہری بن کر ذلیل کئے جاتے ۔۔۔۔۔۔
آخر مسلمانوں کی اتنی بڑی طاقت جو خاک کو آسمان پر پہنچادے پچیہتر سالوں سے کہاں، کیوں ، کس کے پیچھے اور کس مقصد کے لئے ذائع کی گئی ہے ؟؟؟
مسلمانوں کے جذبات اُن کے مستقبل کے ساتھ اتنا بڑا کھلواڑ آخر کیوں ہوا ہے ؟؟؟
اور اس خسارے کا ذمہ دار کون ہے ؟؟؟
وہ عام مسلمان جو علما کرام سے چاند کا اعلان سنے بغیر عید نہیں مناتے نہ ہی علماکرام کے فیصلے کے خلاف ووٹ جیسی اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں ؟؟
یا وہ حضرات جو ووٹ کرنے کو ثواب، عبادت، گواہی بتا کر ووٹ نہ کرنے کو گناہ کبیرہ کہہ کر عین انتخابات کے دوران کسی ایک پارٹی کے ترجمان بن کر سڑکوں سے لے کر مسجدوں تک مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ان دونوں میں آخر کون ہے ذمہ دار ؟
انتخابات کے دوران جس طرح سے مسلمانوں کو متحد کیا جاتا ہے آخر وہ اتحاد دیگر معاملات میں کیوں نظر نہیں آتا ؟؟؟
جب سیاسی معاملات میں تفرقہ نہیں تو دین کے معاملات میں تفرقہ بازی کیوں ہے ؟؟؟
محض الیکشن کے وقت مسلمانوں کے آگے اتحاد کا پیغام دینے والوں میں آخر مسلکوں و فرقوں کے نام پر اس قدر آپسی رنجشیں و مخالفت کیوں ہے کہ ممبروں سے ایک دوسرے کو کافر کہنے لگ جاتے ہیں ؟؟؟
آج ان کی کوششوں سے کرناٹک میں بیشک کانگریس کی جیت اور فرقہ پرست پارٹی بی جے پی کی ہار ہوئی ہے لیکن عام مسلمانوں کے حصہ میں کیا آئے گا ۔۔۔۔؟
محض ایک ریاست کی جیت سے خوش فہمی و غفلت میِں جینا، اس جیت کو مسلمانوں کی فتح کے طور پر دیکھنا، مسلمانوں کی جانب سے مٹھائیاں بانٹ کر جشن منانا، ایک دوسرے کی پیٹھ تھپتھپانا عنقریب یہ ساری حرکتیں پوری قوم کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
کیونکہ بھارت میں جو بھی سرکار آئے ، جتنی بھی سرکاریں بدل جائیں مسلمانوں کے حالات اُس وقت تک نہیں بدلیں گے جب تک قوم مسلم بذات خود سیاسی طور پہ مضبوط نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن افسوس مخصوص پارٹیوں کے سیاسی ترجمان بن کر رہنے سے یہ کبھی ممکن نہیں ہوپائے گا۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ بھی سوشیل میڈیا پر کئی قسم کی خبریں تحریری اور ویڈیوز کی شکل میں گردش کررہی ہیں، جن میں نوٹ کے بدلے ووٹ کا بھی الزام لگایا جارہا ہے جس کے چلتے مساجد و مدارس کی حرمت پامال ہورہی ہے جو پوری قوم کے لئے باعث ذلت ہے ۔۔۔۔۔۔
ایسی ہی ایک ویڈیو آفرین تاج نامی خاتون کی وائرل ہوئی ہے جس میں اس خاتون نے باقاعدہ ایک مولانا کا نام لیتے ہوئے کئی انکشافات کئے ہیں۔۔۔۔ اس دوران آفرین تاج نے ثبوت کے طور پر مولانا سے بات کی گئی ریکارڈنگ بھی وائرل کی ہے ۔۔۔۔۔۔

اس کے علاوہ بنگلورو کے چک پیٹ اسمبلی حلقے کے آزاد امیدوار
کے جی ایف بابو نے بھی مذہبی رہنماؤں پر الزام لگایا ہے کہ ان معزز حضرات نے مسجدوں کے نام پر لاکھوں کی رقم بطور رشوت لی ہے، کے جی ایف بابو نے صاف لفظوں میں یہاں تک کہا ہے کہ الیکشن میں تعاون کرنے کے عوض بنگلورو کی 17 مسجدوں کو لاکھوں روپیوں کا چندہ دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور اب کے جی ایف بابو اخبارات کے ذریعہ اپنی رقم واپس کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔۔۔۔۔

ایسے مین یہ کہنا مشکل ہے کہ ووٹ کے بدلے نوٹ کا سودا مذہبی رہنماؤں کے علم میں کیا گیا ہے یا مسجد کے دیگر ذمہ داران نے چوری چھپی اپنا الو سیدھا کرلیا ہے
بہرحال معاملہ جو بھی ہو آج کے جی ایف بابو کی شکل میں منظرعام پر آچکا ہے ۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ ناجانے ایسے کتنے معاملات ہیں جو پوشیدہ ہیں، جنہیں منظرعام پہ آنے سے قبل دبا دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔
ان تمام حالات کے چلتے یہ یقین کرپانا مشکل ہے کہ مذہبی رہنماؤں کی جانب سے سیاسی و غیرسیاسی حتی کے شرعی معاملات کو لے کر جو اعلانات کئے جارہے ہیں کیا وہ علماکرام کی رضامندی اُن کی علمی روشنی سے ہورہے ہیں یا چند مفاد پرستوں نے رتبہ و طاقت کے زور پر اہل علم حضرات کی سوچ و فکر کو ہائی جیک کررکھا ہے اور کمیٹی ذمہ داران کے نام پہ چند جاہل قسم کے لوگ ان حضرات پہ غالب آرہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
خیر ان تمام حالات کے چلتے ایک سوال یہ بھی پیدا ہورہا ہے کہ
علماکرام جنہیں رہبر ملت کا شرف حاصل ہے کیا وہ کسی مخصوص پارٹی کے ترجمان بن کر رہ گئے ہیں اور ان کی سوچ ان کی فکر غلامانہ ہوچکی ہے جس کے نتیجہ پچیہتر سالوں کی سیاست میں مسلمانوں کے حصہ میں جو آیا ہے وہ ہے پسماندگی، غربت اور غلامی ۔۔۔۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button