
قوم کا سیاسی قاید و لیڈر بنایا نہیں جاتا پیدا ہوتا ہے
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707
https://youtu.be/7ZFesaPLN1A/
قوم کا لیڈر کیا اور کون ہو؟ کئی مرتبہ کے آزمودہ، وقت آنے پر کبھی ہمارا ساتھ نہ دینے والے،اپنے مفاد کے لئے ہمارے دشمنوں کا ساتھ دینے والوں کو ہمارا سیاسی لیڈر ہم بناتے ہوئے، ہمارے اپنے چالیس ہزار ووٹوں سے سیاسی طور اسےمضبوط وطاقتور بناتے ہوئے، ہمارے سیاسی مستقبل کوکمزور و پرخطر بنانے سے اچھا ہے کہ ہم اپنے میں سے ، بچہ سے جوان ہونے کی عمر تک کا عملی سیاسی تجربہ رکھنے والے، متعدد مرتبہ کے ہمارے دیکھے بھالے آزمودہ، ضرورت پڑنے پر ہمیشہ ہمارے مفاد کے لئے سرکاری عہدیداروں سے نبرد آزما ہونے والے،ہمارے مفاد کے لئے اپنے سیاسی مفاد کو صدا داؤپر رکھتے ہوئے، جیل کی سلاخوں کے پیچھے تک جانے سے نہ ڈرنے والے، اور خود کی محنت جانفشانی سے، انہیں ملے سیاسی رتبہ انتخابی ٹکٹ تک کو قوم کے منع کرنے پر، اسے قربان کرتے ہوئے، قوم کے ووٹوں کو بننے نہ دینے والے، اپنے ہی معاشرے کے، اپنے اسلامی اقدار کو سمجھنے والے، کو ہی اپنا لیڈر بنانے میں ہماری قومی ساکھ و عزت ہے۔ ہار جیت تو ہر کھیل کا حصہ ہوتی ہے۔ عموما بازی جیت کر بھی فائیدہ نقصان کے حساب سے اپنی جیت کو ہار کی شکل دیکھنا پڑتا ہے اسی طرح بعض وقت انتخابی دنگل ہار باوجود، اپنے درمیان قد آور لیڈر پاتے ہوئے، اس ہار کو بھی ہم جیت کی طرح پاتے ہیں۔ دشمن کے اعلی ظرف، باوقار خوبرو گیڈر کو اپنی قوم کا محافظ و سیاسی لیڈر بنانے سے اچھا ہے اپنے میں سے باہمت صدا کا آزمودہ، "اسداللہ” نام نامی سے، کھیل و سماجی خدمات ادارے کے سربراہ، کسی شیر کے بچے کو ہی اپنے قوم و وطن کی حفاظت ،اپنی رہبری کے لئے نامزد و منتخب کیا جائے۔اس ضمن میں اپنے آباء و اجداد عرب تاریخ کے ایک واقعہ کو تمثیلا” عرض کررہے ہیں
انتخاب قیادت پر ایک طاقتور عرب قبائل تاریخی کہانی
ایک سمجھدار قبائلی بزرگ کا انتقال ہوگیا اور اس نے اپنے پیچھے ایک جوان لڑکا چھوڑا، جو قبیلے کی قیادت کرنے کے لیے بہت چھوٹا تھا۔ قبیلے کے کئی افراد قائدانہ کردار مقابلہ کے لئے میدان میں اتر چکے تھے، لیکن وہ اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ ان میں کس کو متفقہ طور منتخب کیا جائے۔
وہ اپنے درمیان قومی لیڈر کا حتمی لیڈر منتخب کرنے قوم ہی کے سبب،اس گاؤں قریہ قوم ہی کے سب سے چہیتے،لائق احترام معمر بزرگ کے پاس فیصلہ کرنے کے لئے پہنچ گئے۔
اس بزرگ نے تمام احوال جاننے کے بعد، ان قوم کی قیادت کے دعویداروں کی ذہانت کی جانچ کرنے کے لئے، ان میں سے ہر ایک کو کافی کا ایک ایک کپ دیا اور ان سے کہا:- "اس کپ کو خالی کیجئے لیکن نہ اسکی کافی آپ پھینکیں گے اور نہ ہی آپ اسے پئیں گے”
قوم کی قیادت کے دعویداروں نے، اس اچھنبے فرمان کو سن کر ایک دوسرے کو الجھن و پریشانی میں دیکھا وہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کافی پی کر ختم کئے بنا اور نہ ہی کافی پھینک کر اسے ضائع کئے بنا ،کافی کے کپ کو خالی کیسے کیا جائے۔ کچھ وقت توقف بعد، اس بزرگ شخص نے کسی کو بھیج اس سردار قوم کے جوان سال بیٹے کو بلا بھیجا اور اس کے آنے کے پر علیک سلیک کے بعد،اس کے ہاتھ میں بھی ایک کافی کا کپ دیتے ہوئے وہی بات دہرائی جو انہوں نے ان تمام قائد قوم بننے والے دعوئداروں سے کہی تھی۔
انتقال کر گئے قبائلی قاید کے بیٹے نے ایک نظر سب لوگوں پر ڈالتے ہوئے، نہایت احترام سے جھک کر بزرگ کو سلام کرتے ہوئے، عرب اقدار مطابق سر پر پہنا ہوا غترہ یا بڑا رومال، سر سے اتارا اور آہستہ آہستہ رومال کا ایک سرا ، اس کافی کے کپ میں ڈالنا شروع کیا۔ کپ میں موجود کافی پوری کی پوری جب رومال میں جذب ہوگئی تو اس نے اس بزرگ کے سامنے خالی کپ رکھتے ہوئے نہایت احترام سے کہا کہ لیجئے محترم آپ کا حکم سر آنکھوں پر، کپ بھی خالی ہوچکا ہے اور آپ کی عطا کردہ کافی بھی بغیر ضائع ہوئے،ہمارے سر کا تاج بننے تیار ہے”اس بزرگ نے محسوس کیا کہ وہ جوان نہ صرف زیرک اور ہوشیار ہے، بلکہ اہنے مرحوم والد کی طرح انتہائی اخلاق پرور اور سنجیدہ بھی ہے۔ اسے نیا قوم کا قاید قرار دیتے ہوئے دوسرے دعویداروں سے کہا:- ‘اے لوگو اٹھو اور اپنے نئے لیڈر کو اپنے ساتھ لے جاؤ’۔حاصل کہانی یہ ہے کہ، قاید یا لیڈر بنائے نہیں جاتے خود ساختہ پیدا ہوتے ہیں۔اس کی پرورش و تربیت آپ لوگوں سے بہتر ہے کہ آپ کو ایک عقلمند زیرک ہوشیار ،وقت پر آپ کے کام آنے والا،آپ کی ضرورت کے وقت آپ کے دشمن سے نبزد آزما ہونے والے کسی قاید یا رہنما کی آپ کو ضرورت ہے، آپ عمر کے لحاظ سے عقلمند اور بزرگ ہونے کے باوجود، آپ کی قوم کا لیڈر بننے کےلئے اس سے بہتر کوئی نہیں ہوسکتا۔ ہمیں عمر رسیدہ تجربہ کا لوگوں پر اس نوجوانوں کو موقع دینا چاہیے۔”
ہمارے آباء واجداد عرب قوم کے اس واقعہ کو جاننے کے بعد، ہم اہل نائطہ قوم کو سنجیدگی سے یہ سوچنا چاہئیے۔ کہ قوم کی شرپسندوں سے حفاظت ہمارے صالح اعمال ہی کے سبب اللہ رب العزت کے ذمہ ہے۔ بڑے دشمنان قوم کے ڈر سے قوم کی لیڈری و سیاسی قیادت چھوٹے دشمن اسلام کے ہاتھ میں دینا عقل و دانش کا تقاضہ کبھی نہیں ہوسکتا ہے۔ ہار جیت تو ہر انتخاب کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ انتخابی دنگل میں کچھ ووٹوں سے شکست فاش ہوا ہمارا اپنا قومی لیڈر ، جیتے ہوئے دشمن اسلام لیڈر سے ہزار گنا زیادہ اچھا ہوتا ہے۔اس کا عملی تجربہ ہمیں 2013 انتخاب ہماری قومہ ہار باوجود، ہمیں اپنے قومی ووٹوں کی قدر و منزلت کا بخوبی احساس و اندازہ ہوچکا ہے ۔ 1980 ہمارے قومی لیڈر المحترم یحیی صاحب کے ہمارے عملی لیڈر و وزیر رہتے،کتنے غیر مسلم ورکروں کو مختلف ریاستی کمیٹیوں کا سربراہ بنا کر انکی عزت آفزائی کی تھی اور ان کےبھٹکل سیاست سے دور ہونے کے بعد ہمارے قومی ووٹوں کے سہارے انتخاب جیتنے والے کتنے غیرمسلم لیڈروں نے ہماری قومی احباب کو ریاستی سرکاری کمیٹیوں کا سربراہ بنا کر ہماری قومی اعتبار مدد کی ہے؟ 2013 ہمارے قومی امیدوار ہار کے باوجود ہمارے 26 ہزار ووٹ کانگریس کو نہ ملنے کا احساس ہوتے، ان چالیس سالوں میں پہلی مرتبہ حکومتی من وسلوی سے فیض یاب ہونے اسپائس بورڈ کا ریاستی چیرمین قومی وکیل کا بنانا ان کی مجبوری تھا۔ اس کے بعد بھی، این آر سی ، کا معاملہ ہو، نساء طلباء حجاب احتجاج کے موقع پر، یا ہائی وے 17 کو شہری آبادی سے باہر سے گزارتے تعمیر کرنے کے بجائے، گنجان شہری آبادی ہی سے ہائے وے کو گزارتے شرہسندوں کے فیصلے کے خلاف ، قوم کو جب جب بھی آپنے احتجاج میں ہمارے اپنے ووٹوں سے جیتنے والے غیر مسلم لیڈروں کی مدد کی ضرورت قوم کو پڑی تھی تو ہمارے ووڑوں سے جیتنے والے کتنے غیر مسلم امیدوار ہمارے ساتھ کھڑے پائے گئے تھے؟ انگرئزوں کے زمانے ہی سے بھٹکل بلدیہ پر آویزاں بورڈ پر اردو تحریر کو، نہ صرف مسلم اکثریتی بلکہ مسلم ٹیکس دہندگان سے پروان چڑھنے والی ، نئی بلدیہ بلڈنگ پر کنندہ آردو بورڈ کو جس ڈھٹائی کے ساتھ شرپسندوں نے ہٹاتے ہوئے، قومی اقدار کو داغدار کیا تھا ہمارے قومی ووٹوں سے جیتنے والے کتنے غیر بااثر غیر مسلم لیڈروں نے ہمارے ساتھ کھڑے ہوکر انہیں ملے ہمارے قومی ووٹوں ہی کا تشکر ادا کیا تھا۔ جبکہ ہائے وے 17 شہری آبادی سے باہر لیجانے والا معاملہ ہو سرکاری فاریسٹ زمینوں پر غیر قانونی تعمیرات انہدامی سرکاری کاروائی کے معاملات ہوں،جب جب بھی ایسے نازک موقعوں پر،سابقہ بیس ایک سالوں سے،خادم قوم مشہور فرزند قوم عنایت اللہ شاہ بندری کو قوم نے ہمیشہ سرکاری حکام سے لڑتے اور قوم کو انصاف دلاتے ہی ہم نے ہمیشہ پایا ہے۔ کیا قوم کبھی یہ بھول سکتی کہ جیل تک جانے والا انکا اقدام انکی کوئی غیر قانونی تجارتی سرگرمی سے نہ تھا ہالکہ قوم کے تحفظ کی ہی خاطر، ان کی دلیر!نہ اقدام سے تنگ آئے شرپسندوں کی انانیت کے لئے، انہیں جیل جانا پڑا تھا۔ اس کا ادراک و احساس قوم کو ہمیشہ رہنا چاہئیے۔قوم کی اشرافیہ،غیر مسلم سیاست دانوں سے، اپنے اچھے تعلقات استوار رکھتے ہوئے،وقت ضرورت ان سے استفادہ حاصل کرتے رہنے، برساتی مینڈک کی طرح، گاہے بگاہے وطن آتے ہوئے، دشمن اسلام ارایس آیس، بی جی پی کے ڈر اور خوف میں قوم کو مبتلا کئے،انہیں پس مردہ و پس ہمت کئے ، مصلحت مصلحت کے بہانے قومی ووٹوں کا سودا ان غیر مسلموں سے کئے ، وطن عزیز میں موجود انکے مختلف مافیا ایجنٹوں کو، مستفید ہونے کا موقع وہ دیتے رہتے ہیں اب قوم کے اہل تدبر، فہم و ادراک رکھنے والوں کو یہ سوچنا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان برساتی مینڈکوں پر بھروسہ کیا جائے یا اپنے درمیان ایک شیر کی طرح سرکاری حکام کے سامنے ڈھاڑتے ہوئے، قومی مفاد میں ہمیشہ قوم کے سامنے سینہ سپرد رہنے والے قومی لیڈر ہی کو، اس انتخاب میں قومی لیڈر کے طور آگے رکھنا چاہئیے؟ وما علینا الا البلاغ