مضامین و مقالات

جنگ آزادی: تم نے جب ہوش سنبھالا تو سنبھلنے نہ دیا

جنگ آزادی کی کہنانی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے ۔ ہمارے ملک پر جب انگریزوں نے حکومت کے بارے میں نسوچا تو انہوں نے پہلے اس کیلئے جاسوس بھیجے ۔ ان کے جاسوں نے جاکر اپنے آقاءوں کو رپورٹ دی کہ مغلوں کی فوجی طاقت سے لوہا لینا ناممکن ہے ۔ صرف تجارت کے ذریعہ سے آہستہ آہستہ قبضہ کیا جاسکتا ہے ۔

چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد پڑی اور اسی کے ذریعہ سے گوروں نے وطن عزیز پر قبضے کے جال بننے شروع کئے ۔ ان کی چالوں کو اس وقت کے حکمراں سمجھنے سے قاصر رہے، کیونکہ ان کی نظر مستقبل پر نہیں تھی ۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد ملک کے عوام خود آپس میں الجھ گئے، انگریزوں نے اس اختلاف وانتشار کا پورا فائدہ اٹھایا اور نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر پہلے بنگال پر قبضہ کیا اور چند ہی دنوں بعد مدراس اور کلکتہ پر بھی قبضہ کر لیا اور حکومت کرناشروع کر دیا پھر دھیرے دھیرے پورے ہندوستان پر ۱۸۵۸ میں قبضہ کر لیا ۔ اس لیے ہندوستانیوں کو اس سیاہ دن کو دیکھنے پر مجبور ہونا پڑا ۔

لیکن انگریزوں کے بھارت پر قبضہ کے دوران۱۸۵۷کی آزادی کے لئے جنگ شروع ہوئی اور یہ جنگ بوڑھے شیر بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی ۔ اس جنگ میں وطن کی آزادی کی خاطر بہادر شاہ ظفر ان کے فرزندوں اور ملک کے عوام نے جو قربانی پیش کی وہ آج بھی تاریخ کی ذریں اوراق میں درج ہے ۔

جب انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر سے گرفتاری کے بعد جان کی خیر مانگنے کی بات کہی تو اس وقت انہوں نے یہی کہاتھا کہ ’;6363;ہندیوں میں بو رہے گی جب تلک ایمان کی، تخت لندن تک چلے گی تیغ ہندوستان کی‘ ۔ مطلب واضح ہے کہ ملک کی آزادی کی خاطر ہر قربانی دینے کو ہر کوئی تیار تھا ۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ کسی ایک قوم اور جماعت نے ملک کی آزادی کی لڑائی لڑی، بلکہ ہندو مسلم، سکھ عیسائی سمیت بھارت میں بسنے والی تمام قوموں اور تمام جماعتوں نے اس میں حصہ لیا، ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ لوگ اس وقت انگریزوں کی مخبری میں مشغول تھے جو آج سب کو ملک سے وفاداری کا طمغہ بانٹ رہے ہیں ۔

جہاں تک رہی بات مسلمانوں کی تو مسلمانوں کا جنگ آزادی میں تذکرہ اس لئے زیادہ ملتا ہے اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک ان لوگوں سے چھینا گیا تھا جو مسلمان بادشاہ تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب گول میز کانفرنس میں شرکت کرنے کیلئے مولانا محمد علی جوہر لندن گئے تو اس وقت انہوں نے انگریزوں کے سامنے ایک ہی شرط رکھی تھی کہ یاتو مجھے مکمل آزادی دو یا پھر دفن ہونے کیلئے دو گز زمین ۔ میں غلام ہندوستان میں واپس نہیں جانا چاہتا ۔ چنانچہ ان کی موت واقع ہوگئی اوروصیت کے مطابق بیت المقدس میں ان کی تدفین کی گئی ۔

جنگ آزادی میں دو نام بہت ہی اہمیت کیساتھ لئے جاتے ہیں ، ایک کانگریس کا اور دوسرا نام جمعیۃ علما کا، لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہی دو جماعتیں جنگ آزادی میں شامل نھین بلکہ اگر دیکھیں تو جمعیۃ اہل حدیث کی تشکیل ۱۹۰۶ میں ہی ہو چکی تھی اور علما نے ایک بڑی قربانی دے کر ملک کو آزاد کرایا ۔

آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جناب پنڈت جواہر لعل نہرو نے محلہ صادق پور کے اہل حدیث علما کا جنگ آزادی میں جو کارنامہ ہے، اس کے بارے میں کہا تھا:’’اگر پورے ہندوستانیوں کی قربانیوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور علمائے صادق پور کی قربانیوں کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو علمائے صادق پور کی قربانیاں بھاری پڑیں گی ۔ ‘‘:ہم نے جب ہوش سنبھالا تو سنبھالا تم کواور تم نے جب ہوش سنبھالا تو سنبھلنے نہ دیا ۔

اسی طرح جمعیۃ علما تمام مسالک کی نمائندہ جماعت تھی، جنہوں نے جنگ آزادی میں پوری طاقت سے حصہ لیا ۔ ہ میں علامہ فضل حق خیرآبادی کا انگریزوں کے خلاف فتوی تو یاد ہے، لیکن جب دہلی پر انگریز کا قبضہ ہو گیا اور نازک حالت میں مسلمان مختلف الخیال ہو گئے،کوئی انگریز سے جہاد حریت کو جائز کہتا اور کوئی ناجائز‘لیکن علامہ شاہ عبد العزیز کی عقابی نگاہوں نے فرنگی شاطرانہ چال کو بھانپ لیا اور یہ فتویٰ صادر کیا کہ تمام محبان وطن کا فرض ہے کہ غیر ملکی طاقت سے اعلان جنگ کر کے اس کو ملک بدر کئے بغیر زندہ رہنا اپنے لیے حرام جانیں اور ان ہی کی منظم قیادت اور معتقدین میں سے وہ علمائے پیدا ہوئے جنہوں نے انگریز کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہندوستان آزادی سے شرف یا ب ہوا ۔ ہ میں تحریک ریشمی رومال تو یاد ہے، لیکن تحریک شہیدین کو ہم بھول گئے ۔

یہ ہندوستان میں سب سے پہلی اسلامی تحریک تھی جسے شاہ اسماعیل شہید;231; اور سید احمد شہید ;231; نے برپا کیا تھا ۔ یہ تحریک خاص کر انگریز ی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے پیدا ہوئی تھی ۔ اس تحریک نے سب سے پہلے’ففروا الی اللہ‘ کا نعرہ لگایا،یہ نعرہ کیا تھا ایک بانگ درا تھا جس نے سنا مدہوش ہو گیا،جہاد کی دعوت دی گئی تو علمائنے مسند درس چھوڑ دی، اماموں نے مسجد کے مصلے کو معذوروں کے حوالے کر دیا،مالداروں نے اپنی کوٹھیاں چھوڑ دیں ، غلاموں نے آقاو;63;ں کو سلام کہہ دیا اور ملک کی آزاد ی کیلئے میدان میں نکود پڑے ۔

نیز 1857ءکے بعد سے 1947ءتک ملک کی کوئی بھی سیاسی تحریک ایسی نہیں جس میں علما نے حصہ نہ لیا ہو ۔ اسی طرح علماو غیرعلما میں اشفاق اللہ خان، شیخ الہند مولانا محمود حسن، بیگم حضرت محل، پیر علی خان، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، ارونا آصف علی، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، محمد عبدالرحمان، مولانا برکت اللہ بھوپالی، رفیع احمد قدوائی، آبادی بانو بیگم (بی اماں )مولانا عبیداللہ سندھی، خان عبدالغفار خان، حسرت موہانی، شبلی نعمانی، سید عبد اللہ بریلوی، شوکت اللہ انصاری، عبیداللہ احرار‘مولانا ابو الوفاءثناءاللہ امرتسری،مفتی کفایت اللہ، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی‘مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی‘مولانا ابو القاسم سیف بنارسی‘مولانا ابو القاسم محمد علی مو;63;ی‘مولانا محمد نعمان مو;63;ی‘مولانا محمد احمد مدرس مو;63;ی‘مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری‘مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی‘مولانا محمد ادریس خان بدایونی‘مولانا فضل الہٰی وزیر آبادی‘مولانا عبد الرحیم عرف مولانا محمد بشیر‘صوفی ولی محمد فتوحی والا،کاکا محمد عمر‘غازی شہاب الدین وغیرہ کی ایک طویل فہرست ہے جن کا جنگ آزادی میں حصہ لینا ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مومن کانفرنس کے سامنے جب ملک کی تقسیم تسلیم کرنے کی بات راج گوپال اچاریہ جی نے رکھی اور اسے جیسے ہی مومن کانفرنس کے لوگوں نے ٹھکرایا اس وقت اچاریہ جی نے کہاتھاکہ ’مسلمانوں کا پاکستان کی یوجنا کوراشٹر کیلئے کافی نقصاندہ ماننا تعجب خیز ہے، جبکہ کچھ ہندو دوست اسے تسلیم کرنے کے بارے میں نسوچ رہے ہیں ۔ اور اس کو آگے قابل عمل بنانے کی سمت میں کام کررہے ہیں ‘ ۔ اسے پانچ مئی ۱۹۴۳ کو بجنور سے شاءع ہونے والے مدینہ اخبار نے شاءع بھی کیا ۔ اسی طرح مجلس احرار سےلے کر آل پارٹیز شیعہ کانفرنس، انجمن بلوچستان کا اپنا رول تھا ۔ کرشک پرجا پارٹی بنگال نے عظیم قربانی پیش کی ۔

اسی پارٹی نے ۱۹۳۷ کے چناءو میں مسلم لیک کو بنگال میں شکست دی تھی، جس کے رہنما فضل الحق صاحب تھے ۔ ساءوتھ انڈیا کے ساتھ بیرون ممالک میں بھی تقسیم کیخلاف آندولن چل رہاتھا ۔ ۱۹۴۱ میں جون کے پہلے ہفتے میں نکمب کونم (اب تامل ناڈو میں ) ساءوتھ انڈین اینٹی سپریشن کانفرنس منعقد ہوئی جس کا افتتاح مولانا عبیدا للہ سندھی نے کیا اور انہوں نے تقسیم کوبھارت ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لئے نقصاندہ بتایا ۔

مطلب واضح ہے کہ جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی، سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی ۔ خوشی اس بات کی ہے کہ گردن کٹا کر ملک کو آزاد تو ہم نے کرادیا، لیکن تکلیف اس بات کی ہے کہ ہم نے اس کے بعد اپنے رول کو کانگریس کے کندھے پر ڈال دیا اور خود سمٹ گئے ۔ جب کہ تاریخ ہ میں یہ بتاتی ہے کہ بدن میں انسان کے جب تک روح ہوتی ہے، اس وقت تک کوئی اس کو کاندھا نہیں دیتا ۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کانسہ گدائی کرنے والی قوموں کی کوئی عظمت نہیں ہوتی ہے اور جن کی ترجیحات شعر وشاعری ناچ گانے اور ڈھول نگارے ہوں اور جو دیر تک جاگتی ہوں وہ اچھے قوال تو پیدا کرسکتی ہے، لیکن کلام پیدا نہیں کرسکتیں ہیں ۔ اس لئے ہ میں آج اپنی ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہ میں اس زندگی میں ناُس زندگی کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم خود جل کر دوسروں کو روشنی پہونچائیں ۔

کلیم الحفیظ، نئی دہلی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button