مضامین و مقالات

”شاعر مشرق اور یوم اردو“

زین شمسی
”میں نے شدت سے اردو کو چاہا اور سیکھا، تاکہ میں اس نظریہ کو غلط ثابت کرسکوں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔“ ممبئی یونیورسٹی میں ایم اے اردو میں داخلہ لینے والی کرشنا راجن ساونت نے شستہ،سلیس، نرمی اور حلاوت سے بھرپور اردو لب و لہجہ کے ساتھ یہ بات کہی۔ ٹائمس آف انڈیا کے رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے غالب سے لے کر اقبال تک اور ہندوستانی کی لسانی ساخت اور مختلف زبانوں اور بولیوں پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ اردو زبان کی ہیئت انسان کو مہذب بنانے کے لٸے کافی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں اس زبان میں ہی پی ایچ ڈی کروں گی اور مراٹھی اور اردو کا موازنہ کرتے ہوئے اپنا مقالہ پیش کروں گی۔ ساونت ایک عام طالبہ نہیں ہیں، بلکہ ہمہ جہت شخصیت کی حامل ہیں۔ وہ پلئی انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ ریسرچ میں مینجمنٹ کی پروفیسر ہیں اور یوگا کلاسز کی باقاعدہ پروفیشنل کوچ بھی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مارکیٹنگ میں مینجمنٹ بھی کیا ہے۔ لیبر اسٹڈیز میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کے علاوہ انڈین سوسائٹی فار اپلائڈ بی ہیوویئر (Indian Society for Applied Behaviour) میں کونسلر بھی ہیں۔ ان کی تعلیمی اہمیت اور عملی /علمی قابلیت سے صاف صاف اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اردو یا کسی بھی زبان و ادب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، مگر جب وہ کہتی ہیں کہ اردو سے ان کی وابستگی صرف اس لٸے ہے کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ اردو کسی ایک فرقہ کی زبان نہیں ہے تو پھر ان کی اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہٸے۔
ملک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی پیمانہ پر ”یوم اردو“ کا شور کچھ دن قبل پورے زور و شور کے ساتھ سنائی دیا۔ ہر ادارے اور تنظیموں نے ایوارڈ و اسناد تقسیم کٸےاور اردو زبان کی اہمیت اور اردو ادب کی ضرورت کو سماج اور طلبا کے لٸے ضروری قرار دیا۔ کئی لوگوں نے اردو کے فروغ اور ترقی میں خود کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کام کی فہرست بھی گنوائی۔ اس بات کو قبول کرنے میں کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہے کہ اردو زبان و ادب نے ہندوستانی سماج کو بہت کچھ دیا ہے۔ خاص کر ادب کے رول سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ داغ، میر غالب، آتش ، نظیر اکبرآبادی، اکبرالٰہ آبادی، جوش، فیض، اقبال یہ سب ایسے نام ہیں، جس کے بغیر اردو کا کوئی مقالہ یا کتاب تشنہ ہے، لیکن یہاں پر کچھ پل ٹھہرکر سوچنا بھی ضروری ہے کہ کیا ہم ان سارے ناموں کے ساتھ ہی رہیں گے یا پھر اس کی توسیع بھی کرپائیں گے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زبان و ادب کے فروغ میں قارئین کا رول سب سے اہم ہوتا ہے۔ آج کے دور میں جب نئی تعلیمی پالیسی بن چکی ہے۔ ٹیکنالوجی ہم پر حاوی ہوچکی ہے۔ پروفیشنل ازم کا دور دورہ ہے۔ مفادپرستی عروج پر ہے۔ تعلیمی ادارے پیسہ کمانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔یونیورسٹیوں سے زیادہ ہجوم کوچنگ سینٹر پر دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں ہم ”اردو“ کو کس طرح بچالے جائیں گے۔ اس کے لٸے ہمارے پاس کون سا لائحہ عمل ہے۔
ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہٸے کہ ”یوم اردو“کا جشن جو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے، کیا وہ اقبال کے نام پر منایا جانا درست ہے۔ یہ بات میں اس لٸے لکھ رہا ہوں کہ جس شاعر کو اردو برادری ”شاعر مشرق“ کا خطاب دے چکی ہے وہ ”شاعر عالم“ کیسے ہوسکتا ہے۔ آپ سب کو یہ بھی بخوبی پتہ ہے کہ نوبل پراٸز معاملے میں رابندر ناتھ ٹیگور کو اقبال پر فوقیت دی گٸی تھی۔ اس کےپس پشت اقبال کاعالمی نہیں ملی نظریہ کارفرما تھا۔آج جب سیاست اور سماج پوری طرح تبدیلی کے دہانے پر ہے۔ سودیشی کا سیاسی جھنجھنا ہر کسی کے ہاتھ میں تھما دیا گیا ہے۔ اردو بھی سیاست کی زد میں ہے۔ ”لب پہ آتی ہے بن کے تمنا میری“ جیسی انسانیت سے بھرپور نظمیں بھی پابند کردی جاتی ہیں۔ اردو کو پاکستانی زبان قرار دیا جانے لگا ہے۔ ایسے میں ہم پاکستان کے قومی شاعر کو ”یوم اردو“ کا سدباب بناتے ہیں۔ سیاسی نقطہ نظر سے نہ بھی دیکھیں تو اقبال کے نام پر ”یوم اردو“ کا جشن کیوں؟ کیا ہمارے امیرخسرو یا کائنات کے ذہین ترین انسانوں میں سے ایک غالب سے کوٸی بھول ہو گٸی تھی۔
ہند و پاک کی تقسیم کے بعد پاکستانیوں کے لٸے اقبال معتبر ہوئے تو ہندوستان نے غالب کو سر چڑھایا۔ اس لٸے پاکستان میں ’اقبال‘ کے نام پر اکادمیاں اور ادارے قائم ہوتے گئے اور ہندوستان میں اقبال سے پرہیز کا رجحان بڑھا اور غالب کے نام پر اکادمیاں اور ادارے فروغ دٸے گئے۔ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ ”شاعر“ کو بھی سیاست نے دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ مگرہمیں آج کے ”اردو“ کے ”پس منظر“ پر گہرائی سے غور کرنا چاہٸے اور یہ میں پہلی بار نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے جب ”یوم اردو“ کو امیر خسرو سے منسوب کرنے کی پہل کی تھی تب اردو دنیا میں ہلچل پیدا ہوئی لیکن کوئی ایسی دلیل سامنے نہیں آئی جس سے یہ ثابت ہو کہ ”اقبال“ ہی اردو ہیں۔
یوم اردو کے موقع پر ”دی وائر“ نے کرشن پرتاپ سنگھ کا ایک آرٹیکل ”علامہ اقبال: آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں“ شائع کیا۔ اس مضمون میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”سال 1904میں ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ جیسا شہرہ آفاق ترانہ پیش کر1905میں اسے سب سے پہلے لاہور کے ایک کالج میں سنانے والے محمد اقبال (جو بعد میں برصغیر میں علامہ اقبال کے نام سے معروف شاعروں میں شمار کٸے جاتے ہیں، جن کے نام پر ”یوم اردو“ منایا جاتا ہے) محض 25سال بعد مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کا مطالبہ اٹھاکر اپنی شخصیت کے تذبذب میں پھنس کر بے پردہ نہ ہوئے ہوتے تو کون کہہ سکتا ہے کہ آج کی تاریخ میں وہ اس کے ایک ٹکڑے(پاکستان) کے ہی قومی شاعر ہوکر نہ رہ گئے ہوتے۔ بہت ممکن ہے کہ تب وہ نوبل پرائز لینے والے گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور سے بھی زیادہ خوش قسمت ثابت ہوئے، جنہیں ہندوستان، بنگلہ دیش دونوں کا قومی ترانہ لکھنے کا فخر حاصل ہے۔ علامہ اقبال کے ذریعہ شاعری اور سیاسی لیڈر کے طور پر کیا گیا لمبا سفر انہیں ایسے مقام پر لے جاتا ہے جہاں بقول غالب ”یوں ہوتا تو کیا ہوتا“ کی کسک سناٸی دینے لگتی ہے۔ ان کی جو شخصیت ایک دور میں ”وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے“، تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں، نہ سنبھلو گے تو مٹ جاو گے اے ہندوستاں والو! تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں“ لکھ کر ہمیں مستقبل کے اندیشوں میں اندھیروں سے آگاہ کردیتی تھی، وہی آخرکار ہمیں اس کسک کے حوالہ کیوں کرگئی؟ خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے، شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے، دھرتی کے واسیوں کی مکتی پریت میں ہے، کا نیا شوالہ بنانے والے اقبال کو مسلم لیگ کے 29دسمبر1930کے کنونشن میں اسٹیج پر آکر دو قومی نظریہ کی وکالت کیوں کرنی پڑی، جسے بعد میں محمد علی جناح نے ہر قیمت پر انجام تک پہنچایا۔“ اس پیراگراف میں مضمون نگار علامہ اقبال کی بلند و جاہت، قومی شاعری اور انسانیت پر مبنی فلسفے کو ان کی سیاسی بصیرت پر چوٹ کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ علامہ اقبال بہترین فلاسفر، اعلیٰ پایہ کے شاعر ہونے کے باوجود اپنے دھرم سے ہارگئے۔ شاید ان کا یہی فلسفہ انہیں شاعر مشرق یا شاعر ملت کا خطاب دیتا ہے، مگر ان کی یہی بھول ان کے فلسفیانہ سوچ کو محدود کرکے پورے عالم کی وسیع دائرے سے نکال کر ”شاعر مشرق“ تک محدود کردیتی ہے۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ علامہ اقبال اعلیٰ معیار کے شاعر تھے، مگر وقت وقت پر وہ اپنے نظریہ میں تبدیلی لاتے رہے۔ ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ کے بعد وہ ”مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا“ تک گئے۔ قومی شاعری سے مارکسی شاعری تک اور پھر ملی شاعری پر اختتام یہ بات واضح کرتی ہے کہ علامہ اقبال دل سے سوچتے سوچتے دماغ سے بھی سوچ رہے تھے۔ ایک شاعر کے طور پر وہ مستند ہوسکتے ہیں، مگرایک شخص کے طور پر قطعی نہیں۔
چوں کہ اس مضمون میں بات اٹھادی گئی ہے اس لٸے ہم اردو والوں کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ”یوم اردو‘’ واقعی اقبال کے نام پر ہی منایا جانا چاہٸے یا علامہ اقبال کے موقف کی طرح ہمیں بھی اپنا رویہ بدلنا چاہٸے۔ ہمیں ”یوم اردو“ پر اقبال کو یاد کرنے کی ضرورت ہے، یا پھر اردو پر مسلمانوں کی زبان کا دھبہ ہٹانے والی کرشنا یا پھر ایسی دوسری شخصیت کو شاباشی دینے کی ضرورت ہے، جس سے اردو کا وقار قائم ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button