
موبائل پر میسج بھیجنے کی تین شرطیں
مفتی ندیم احمد انصاری
موبائل فون کے باعث ہمارے سماج میں جھوٹ اوربے سند باتوںاور افواہوں کو بہت فروغ ہو رہا ہے۔ ایک طرف جہاں موبائل کے ذریعے بہت سے دینی ودنیوی مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں، وہیں دوسری طرف بہت سی بے سرو پا باتیں بھی رواج پا رہی ہیں۔ موبائل کو آلہ بنا کر بعض ایسی باتیں جن کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں،انھیں ثواب کی چیز بتا کر اس طرح پیش کیا جارہا ہے کہ ایک نیا دین لوگوں کے ذہنوں میں جڑ پکڑنے لگا ہے اور اس بات کو کارِ ثواب سمجھ کر لوگ اس اہتمام سے آگے پہنچا رہے ہیں کہ اگر واقعی دین کی صحیح اور محقَّق باتوں کو اس درجے فروغ دیا جاتا تو ایک صالح معاشرہ وجود میں آجاتا۔
ہو یہ رہا ہے کہ موبائل کے ذریعے ایس ایم ایس یا انٹرنیٹ کی سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے ای میل یاواٹس ایپ وغیرہ کی مدد سے بعض لوگ مذہبیات سے متعلق کوئی پیغام بھیج کراسے بہت سی شرطوں سے مشروط کر دیتے ہیں،بعض دفع اصل بات تو درست ہوتی ہے، لیکن اس میں لگائی گئی شرطیں لغو یا غلو پر مبنی ہوتی ہیں۔ مثلاً اتنے لوگوں کو یہ میسیج فارورڈکریں تو یہ خوش خبری ملے گی اوراگر ایسا نہیں کیا تو یوں ہو جائے گا۔ایک طریقہ یہ ایجاد کیاہے کہ ماں یا باپ جیسے کسی جذباتی رشتے سے متعلق کوئی جذباتی میسیج لکھ کراس کے ساتھ یہ لکھ دیتے ہیںکہ اگر آپ بھی اپنی ماں سے محبت کرتے ہیں تو ضرور اس میسیج کو کم از کم اتنے لوگوں کو بھیجیں، جو اس میسج کو فارورڈ نہ کرے وہ اپنی ماں سے محبت نہیںکرتا،وغیرہ و غیرہ۔
بعض دفع ایسے میسیج آگے بھیج دیے جاتے ہیں جو خود بھیجنے والے کی بھی سمجھ سے پَرے ہوتے ہیں،اور اس میسیج کے لکھنے والے کے علم و معلومات کابھی پتا نہیں ہوتا کہ اس نے جو بات کہی ہے وہ صحیح علم کی روشنی میں کہی ہے یا یوں ہی الل ٹَپ سنی سنائی بات لکھ کر بھیج دی ہے !جب کہ رسولِ رحمت حضرت محمد ﷺ نے جن اخلاقِ حسنہ پر بہت زیادہ زور دیا ہے، بلکہ جنھیں ایمان کا لازمہ قرار دیا ہے ، ان میں راست گوئی اور صدق وامانت داری بھی ہے۔یعنی سچ بولنا بہ ذاتِ خود ایک عبادت ہے ۔ سچائی کا دامن کسی دنیوی معاملے میں بھی ہاتھ سے چھوٹنا نہیں چاہیے ، چہ جائے کہ دین کے معاملات میں غفلت برتی جائے، یعنی دین میں ایسی باتوں کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے جن سے اصل دین کی صورت ہی مسخ ہو کر رہ جائے؟اللہ کے رسول ﷺنے اس کی سخت ممانعت فرمائی ہے۔ہاں دین کی مستند باتیں آگے پہنچانے کے ساتھ صرف اتنا کہہ دیاجا ئے کہ- اسے دوسروں تک بھی پہنچانے کا اہتمام کریں – تو گنجائش نکل سکتی ہے ۔
المختصر! دین کے فروغ کے لیے جدید آلات کو استعمال میںلایا جائے، لیکن اسے وبالِ دین یا وبالِ جان نہ بنایا جائے اور دین کی کسی بات کے ساتھ کوئی ایسی بات ہرگز شامل نہ کی جائے جو جھوٹ پر مبنی ہو۔اگر ان باتوں کا خیال نہ رکھا گیا تو وہی کام -جسے نیکی کی نیت اور ثواب کی امید پر کیا جا رہا تھا-آخرت میں عذاب و مواخذے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے موبائل پر بعض اوقات دینی یا معلوماتی اعتبار سے جو مفید پیغامات آتے ہیں، جو تحریر اور آواز کی صورت میں ہوتے ہیں، ان کو دوسروں تک بھیجنا تین شرطوں کے ساتھ جائز ہوگا؛
پہلی شرط
(۱)پیغام میں کوئی بات جھوٹ یا بلا تحقیق نہ ہو۔
qحضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، حضرت نبی کریمﷺنے فرمایا:سچائی نیکی کی طرف ہدایت کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف ہدایت کرتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق ہوجاتا ہے ۔ جھوٹ بدکاری کی طرف لے جاتا ہے اور بدکاری دوزخ کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔[بخاری]
qحضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: میرے اوپر جھوٹ نہ بولنا، کیوں کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ بولے ، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔[بخاری ]
qحضرت سفیان بن اسید الحضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی گفتگو کرو کہ وہ تمھاری اس گفتگو کو سچ سمجھ رہا ہو اور تم فی الواقع اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔[ابوداود]
qحضرت بہز بن حکیم اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:خرابی ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹی بات کرے! اس کے لیے خرابی ہے ! اس کے لیے خرابی ہے![ترمذی ]
qحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا:آدمی کے گنہ گار ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کر دے ۔ [ابوداود]
دوسری شرط
(۲)جسے پیغام بھیجا جا رہا ہے ، اس کی طرف سے کوئی ممانعت یا اسے تکلیف پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو۔
qحضرت ابوصرمہ کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو کسی کو ضرر یا تکلیف پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ بھی اسے ضرور تکلیف پہنچائیں گے، اور جو کوئی کسی کو مشقت میں ڈالتا ہے ، اللہ تعالیٰ بھی اس کو مشقت میں مبتلا کرتا ہے ۔[ترمذی]
تیسری شرط
(۳)پیغام میں کوئی بات غیر شرعی نہ ہو، اس لیے کہ جب بھی انسان کوئی کام کرے یا تو وہ خیر پر مبنی ہو، یا کم از کم برائی سے دور ہو۔
qحضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ہر مسلمان کے لیے صدقہ لازم ہے ! لوگوں نے پوچھا: اگر اس کے پاس کچھ نہ ہو ؟ آپﷺنے فرمایا: اپنے ہاتھ سے کام کرے ، اس سے اپنی ذات کو نفع پہنچائے اور صدقہ کرے ۔ لوگوں نے پوچھا: اگر اس کی صلاحیت نہ رکھتا ہو یا یہ کہا کہ ایسا نہ کیا تو؟ آپﷺ نے فرمایا: کسی ضرورت مند مظلوم کی مدد کرے ۔ لوگوں نے پوچھا: اگر یہ بھی نہ کیا؟ آپﷺ نے فرمایا: اچھی باتوں کا حکم دے (خیر یا معروف کا لفظ فرمایا)۔ کسی نے پوچھا: اگر یہ بھی نہ کیا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: برائی سے رکا رہے، یہی اس کا صدقہ ہے۔[بخاری]
[مضمون نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر ہیں]