
غریب اورلاچار لوگ عید کیسے منائیں گے ؟۔کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے!!!! (پہلی قسط) قابل مطالعہ تحریر
مولانا بدیع الزماں ندوی قاسمی
چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈریسرچ ٹرسٹ بنگلور ، کرناٹک وجامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور ، بہار
عید کا تصور اتنا ہی پرانا اور قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ قدیم ہے۔لفظ عید تین حرفی ہے۔ عید عربی زبان کے لفظ عود سے ماخوذ ہے جس کے معنی لوٹ آنا اور بار بار آنے کے ہیں۔ عید چونکہ ہر سال لوٹ آتی ہے، اس لیے اس کو عید کہا گیا۔ ہر وہ دن جو بطور یادگار منایا جائے اسے عید کہا جاتا ہے۔ انسانی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو ’’عید‘‘ کے جوہری تصور سے آشنا نہ ہو۔ اسی طرح ہر ملت، قوم اور کلچر کے لوگ مختلف تہواروں کی شکل میں عیدیں مناتے آرہے ہیں۔
اس پر مسرت خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمانوں بھائیوں کو بھی نہ بھولیں۔ یہ غریب لوگ آپ کے دائیں بائیں، آپ کے پڑوس میں، آپ کے محلے میں، آپ کے علاقے میں آپ کے ملک میں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوسکتے ہیں۔ جس کی جتنی ہمت و سکت ہے، اس کو عید کی خوشیوں میں دوسروں کو شامل کرنے کے لیے حصہ لینا چاہیے۔ ایک عام مڈل کلاس کا انسان اپنے قریبی رشتہ دار اور ہمسایوں کا خیال رکھے تو ایک صاحب ثروت انسان ملک بھر اور دنیا بھر کے غریب مسلمان بھائیوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کی کوشش کرے۔
ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ حسب توفیق غریبوں کو بھی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کرے۔ عید اصل میں دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے۔
ہمارے ملک میں ایک ایسا انتہائی غریب طبقہ بھی ہے جس کے پاس ’’گزارہ‘‘ کرنے کے لیے راشن نہیں ہے۔ان لوگوں کے سروں پر چھت بھی نہیں ہے!۔یہ غریب اور لاچار لوگ عید کیسے گزاریں گے ؟۔کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے!!!!۔’
غربت کوجرائم کی ’’ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔غربت میں ’بغاوت‘ جنم لیتی ہے۔اور بغاوت مایوسی سے اُبھرنے والے غصہ سے ابھرتی ہے ۔
مالی طور پر آسودہ طبقات کے لیے عید واقعی بڑی خوشی کا موقع ہوتی ہے لیکن غربت کی چکی میں پسے ہوئے مصیبت زدوں اور بنیادی ضرورتوں سے محروم مسلمانوں کے لئے عید بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتی۔
عید کے موقعہ پر ’’غربت‘‘ کی بنا پر خوشیوں سے محرومی کے واقعات کا رد عمل دیکھنا ہوتو عید کے دن سے ایک دو دن پہلے کے اخبار اُٹھا کر دیکھ لیجئے۔لوگ کس طرح خود کشیاں کر تے ہیں؟۔کس طرح تن ڈھاپنے کے لیے کپڑے نہ ملنے کی وجہ سے لوگ ’’زہر‘‘ کی گولیاں کھا کر زندگی کے غموں سے چھٹکاراہ حاصل کرتے ہیں!
اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عید خوشیوں سے محروم تہوار بنتا جارہا ہے۔